بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان دو روزہ کانفرنس 14 جولائی بروز جمعہ سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقد کررہا ہے۔ اس پروگرام کی منظوری کمیشن نے اپنے ایکس آفیشو چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال سے حاصل کی ہے۔
اس موقع پر مختلف حلقوں میں یہ موضوع زیربحث ہے کہ آیا آبادی کے مسئلے پر کانفرنس کا انعقاد سپریم کورٹ کا آئینی اور قانونی مینڈیٹ ہے اور کیا سپریم کورٹ کو عدالتی موضوعات سے ہٹ کر دیگر مسائل پربات کرنی بھی چاہیے کہ نہیں۔
شوکت عزیز صدیقی کا موقف
وی نیوز سے گفتگو میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اس سلسلے میں کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معاملات کے لئے بہبود آبادی اور وزارت صحت کی مکمل وزارتیں موجود ہے اور کسی بھی طریقے سے اس طرح کی کانفرنس کا انعقاد کرنا نہ تو سپریم کورٹ کے اختیارات اور نہ فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔
’یہ ہو سکتا تھا کہ سپریم کورٹ نے اگر کسی مقدمے میں متعلقہ وزارتوں کے لیے کوئی احکامات جاری کیے ہوتے تو وہ اس پر بات کر سکتے تھے۔‘
چیف جسٹس کو ٹوئیٹ کے ذریعہ مشورہ
اس سے قبل شوکت عزیز صدیقی نے ایک ٹوئیٹ میں چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آبادی پر قابو پانے کی غرض سے کانفرنس کا انعقاد ان کے دائرہ اختيار ميں نہيں آتا۔ ’۔۔۔ محض پیسہ کا ضياع ہے کيا ہی مُناسب ہوتا کہ يہ کانفرنس انصاف کے حصول ميں رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے ہوتی اور سائلين کے دُکھوں کا مداوا تجويز کرتی۔‘
https://twitter.com/ShaukatAzizSid1/status/1679134315567886336?s=20
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تو کام یہ تھا اس بات پر سیمینار کا انعقاد کرتی کہ زیرالتواء مقدمات کی تعداد کس طرح کم ہو سکتی ہے یا سائلین کے مسائل کس طرح سے کم کیے جا سکتے ہیں۔ ’مقدمات کی آبادی تو آپ سے کنٹرول ہو نہیں رہی اور آپ ملک کی آبادی کے مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔‘
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا حوالہ دیتے ہوئے، شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس نوعیت کے بہت سے فضول کام کیے جس میں ڈیم فنڈ اورآبادی کنٹرول کا مسئلہ بھی شامل تھا۔’ یہاں اب تک 1887 اور 1908 کے پروسیجر چل رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کام اور مینڈیٹ یہ ہے کہ کس طرح ان کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے، اس پر کانفرنسز کے انعقاد کی ضرورت ہے۔‘
ملک میں نئی عدالتیں بنانے اور سائلین کی سہولیات کے لیے چندہ کریں
شوکت عزیز صدیقی کے مطابق 90 فیصد مقدمات تو ضلعی عدالتوں میں ختم ہو جاتے ہیں، پھر کوئی پانچ فیصد ہائی کورٹ اور اس کے بعد پانچ فیصد سپریم کورٹ تک آتے ہیں کیونکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے انصاف کا حصول خاصا مہنگا کام ہے۔
’سپریم کورٹ کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ جہاں 90 فیصد مقدمات کا فیصلہ ہو رہا ہے کیا وہاں ججوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، کیا وہاں سائلین کے لیے سہولیات میں اضافہ ہونا چاہیے، ان کاموں کے لیے سپریم کورٹ اگر چندہ اکٹھا کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ڈیم کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا یا آبادی کنٹرول یہ سپریم کورٹ کا مینڈیٹ نہیں ہے۔‘
سپریم کورٹ کی فہرستِ کارکردگی
12 جولائی کو سپریم کورٹ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق گزشتہ عدالتی سال میں سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد میں 2116 مقدمات کی کمی ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بینچ کے سربراہ کے طور پر 243 دنوں میں 8796 مقدمات نمٹائے جبکہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 188 دنوں میں 1323 مقدمات نمٹائے۔
اس کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اس فہرست میں یہ اعداد و شمار نہیں دیے گئے کہ کس جج کو کتنے مقدمات فیصلہ کرنے کے لیے سونپے گئے تھے۔
اسی پہلو پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں اکثر چیف جسٹس بیشترزائد المیعاد مقدمات یا پھرایسے مقدمات جو تکنیکی اعتبار سے اتنے مضبوط نہیں ہوتے ان کی جلد سماعت اور پھر مسترد کرکے بہتر اعداد و شمار اپنے نام کرلیتے ہیں۔
’سپریم کورٹ کے جج یا پھر چیف جسٹس کی کارکردگی کو جانچنے کا اصل پیمانہ تو یہ ہے کہ انہوں نے کونسی نئی عدالتی نظیریں قائم کیں، قانون کے کون سے نئے نکات اور پہلوؤں کو روشن کیا۔ مقدمات کو ٹائم بارڈ یا زائد المیعاد کہہ کر مسترد کر دینا تو بہت آسان ہے لیکن سپریم کورٹ کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ آیا ان مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں۔‘
گوہر علی خان ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے وکیل گوہر علی خان نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر طلب کردہ کانفرنس سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی باقیات ہے۔ ’یہ سیاسی یا انتظامی مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ عدالتی مسئلہ بالکل بھی نہیں ہے اور اس طرح کی کانفرنسز فقط پیسوں کا ضیاع ہیں۔‘
گوہر علی خان کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے ابھی حال ہی میں اسقاط حمل سے متعلق ایک فیصلہ دیا، یہ عدالتی موضوع ہو سکتا ہے لیکن ملک میں آبادی کس طرح کنٹرول کرنی ہے اس کا سپریم کورٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان بار کونسل کی وضاحت
پاکستان بار کونسل کے ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ کانفرنس سپریم کورٹ نہیں بلکہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن منعقد کروا رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس کمیشن کے ایکس آفیشو چیئرمین اور کمیشن کے سیکریٹری کا تقرر کا استحقاق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت نامے چیف جسٹس کے نام سے جاری کیے گئے ہیں۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ یہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اٹھائے گئے اقدامات کا ہی ایک تسلسل ہے۔
جی ایم چوہدری کا رد عمل
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کانفرنس لا اینڈ جسٹس کمیشن بھی منعقد کروا رہا ہے تو یہ اس کا بھی کام نہیں۔ ہاں اگر اس کا نام لا اینڈ پاپولیشن ویلفیئر کمیشن ہوتا تو شاید ایسا کرنا اصولاً ممکن ہوتا۔ ’لاء اینڈ جسٹس کمیشن کا ایک تحریری مینڈیٹ ہے جس میں آبادی کے مسئلے پر کانفرنس کے انعقاد کا کوئی ذکر نہیں۔
نہ آبادی ہوگی نہ مقدمات آئیں گے
جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے ازراہِ تفنن کہا کہ ایک لحاظ سے یہ ٹھیک ہے کہ نہ آبادی ہو گی نہ مقدمات بنیں گے بلکہ آبادی جتنی کم ہو گی مقدمات اتنے ہی کم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیمینار یا کانفرنس کرانا ہی تھی تو قانون کی حکمرانی پر کراتے۔
’آپ تو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا آپ نے اپنے تمام آئینی فرائض پورے کر لیے ہیں اس لیے اب آپ آبادی کے مسئلے کو دیکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر نہ سپریم کورٹ اور نہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کا کوئی ایسا مین