دُنیا بھر میں ڈیجیٹل کرنسی کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کئی ممالک ڈیجیٹیل کرنسی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ا ن میں چین، امریکا، تھائی لینڈ، ملیشیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، ان ممالک میں بھی ڈیجیٹل کرنسی ابھی آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں ایک بٹ کوائین کی مالیت کیا ہے؟
دنیا کی مشہور ڈیجیٹل کرنسیوں میں بٹ کوائن سر فہرست ہے، دوسرے نمبر پر ایتھریم اور پھر تیسرے نمبر پر یو ایس ٹی ڈی ہے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں ایک بٹ کوائن کی قیمت 20 ہزار 589 امریکی ڈالر ہے، ایتھریم کی قیمت تقریباً 1900 امریکی ڈالر، جبکہ ایک یو ایس ڈی ٹی کی قیمت 0.9 امریکی ڈالر ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے؟
ڈیجیٹل کرنسی دراصل الیکٹرانک کرنسی کو کہتے ہیں جو کاغذی شکل میں نہیں ہوتی نا ہی یہ کسی ریاستی بینک کی جانب سے جاری کی جاتی ہے، یہ کسی ٹھوس فارم میں نہیں ہوتی۔
ڈیجیٹل کرنسی کے ایک ماہر مزمل فرقان نے بتایا کہ ڈیجیٹل کرنسی ای پے منٹس کو کہتے ہیں۔ ہمارے کریڈٹ کارڈز، ای ویزا وغیرہ تمام ڈیجیٹل کرنسی کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ جس طرح ہم ان کارڈز کے ذریعے آن لائن لین دین کر سکتے ہیں اور اس کا ریکارڈ بھی موجود ہوتا ہے۔
کرپٹو کرنسی کیا ہے؟
کرپٹو کرنسی کے بارے میں مزمل فرقان نے بتایا کہ ’ کرپٹو کرنسی سے مراد اشاراتی یا خفیہ کرنسی ہے۔ کیونکہ اس کی ٹرانزیکشنز کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ یہ ٹرانزیکشنز صرف انہی 2 لوگوں کو معلوم ہوتی ہے ایک جس نے یہ بھیجی ہو اور دوسرا وہ جس نے وصول کی ہو۔
مزمل فرقان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بلاک چین پر چل رہی ہوتی ہیں، مطلب یہ کہ اس کو کنٹرول کرنے والا کوئی مرکزی ادارہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ترسیل کمپیوٹر کے ذریعے ایک کوڈ کے تحت کی جاتی ہے اور اس طریقے کو صارفین ‘مائننگ ‘کہتے ہیں۔
کرپٹو کرنسی کی ترسیل کے بعد اس کا اندراج ایک اکاؤنٹ رجسٹر میں کر دیا جاتا ہے۔ اس رجسٹرڈ اکاؤنٹ تک رسائی ممکن ہے لیکن دیکھنے والے کی تفصیلات ظاہر نہیں ہوتیں۔ رقم کی ترسیل کے لیے کوڈ کا کوئی مخصوص نام نہیں ہوتا بلکہ اسے مختلف یونانی اعداد میں ترتیب دیا جاتا ہے۔‘اس کا ایک طریقہ کار بنانا ضروری ہوتا ہے۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے گرو مانے جانے والے وقار ذکا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ڈیجیٹل کرنسی بالکل اسی طرح ہوگی جیسے امریکا میں شروع ہونے والی فیڈناؤ (FEDNOW) سروس ہے۔
پاکستان کی ڈیجیٹل کرنسی جاز یا ایزی پیسہ کا ایک نیا ورژن ہوگا
پاکستان کی ڈیجیٹل کرنسی جاز یا ایزی پیسہ کا ایک نیا ورژن ہوگا، کیونکہ اس ڈیجیٹل کرنسی کے پیچھے جو بھی کرنسی ہوگی وہ پاکستانی روپے میں ہی ہو گی، جس کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے تو یہ کہنا کہ پاکستان میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسی کے بعد پاکستانی معیشت کو فائدہ ہوگا، درست نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستانی عوام سمجھ رہے ہیں شاید کرپٹو کی طرح کی کسی کرنسی کا اجرا ہونے جا رہا ہے۔
ایک سوال پر وقار ذکا نےبتایا کہ اگر آپ کرپٹو کرنسی کے بارے میں مکمل معلومات یا طریقہ کار سے لا علم ہیں تو پہلے مکمل تربیت اور طریقہ کار حاصل کریں پھر صرف بٹ کوائن میں ہی سرمایہ کاری کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ یوٹیوب پر بغیر سرمایہ کاری کے طریقہ کار سرچ کریں اور پھر اس کی ٹریڈنگ کا مکمل طریقہ کار سیکھیں، کبھی بھی کسی کو اپنی سرمایہ کاری ٹریڈنگ کے لیے نہ دیں، کبھی بھی کسی کے ان باکس پیغام پر یقین نہ کریں۔ ڈیجیٹل یا کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ کا اصول ہی یہی ہے کہ آپ کو اپنے فنڈز کا خود خیال رکھنا پڑتا ہے۔
کرپٹو کرنسی کی ٹرانزیکشن پر بات کرتے ہوئے وقار ذکا کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ راز درانہ ٹرانزیکشن کی وجہ سے اس میں رکاوٹ ہے۔ اس میں ایسی کوئی خفیہ چیز نہیں ہے، بلاک چین ٹیکنالوجی پر اگر کوئی بٹ کوائن خریدتا ہے تو نیشنل سیکیورٹی ایجنسی امریکا (این ایس اے) 2 منٹ میں ٹریک کر سکتی ہے اسی طرح پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہر چیز ٹریک کر سکتی ہے۔
کاغذی کرنسی کو لاحق خطرات کے حوالے سے وقار ذکا نے بتایا کہ کاغذی کرنسی ڈاکیے کہ طرح ہے جیسے ڈاکیے کو ای میل سے خطرات لاحق ہیں وہی خطرات یہاں بھی ہیں، ڈاکیہ کام تو کرتا رہے گا مگر ڈاکیے سے اعتبار اٹھ جائے گا، بینک منیجر کا کام خطرے میں ہے، آپ کا موبائل آپ کا بینک بن جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کرپٹو کرنسی پر پاپندی نہیں لگا سکتا
ایک اور سوال کے جواب میں وقار ذکا نے بتایا کہ وہ عدالت میں تقریباً 2 سال تک بغیر وکیل کے پیش ہوتے رہے کہ اسٹیٹ بینک کرپٹو پر پابندی نہیں لگا سکتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپٹو ایک سافٹ ویئرہے نا کہ کرنسی نوٹ، ‘لہٰذا فارن ایکسچینج ایکٹ 1947 کا قانون یا بینکنگ کورٹ کا کوئی قانون کرپٹو پر لاگو نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس دلیل کو جسٹس کریم خان آغا نے اپنے عدالتی حکم میں سراہا اور عدالت نے اسٹیٹ بینک کے سرکاری افسر سے پوچھا کہ وہ کرپٹو پر پابندی لگانے کے لیے کون سا قانون استعمال کر رہے ہیں۔سرکاری اہلکار کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
وقار ذکا کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی جواب نہیں ہے تو عدالت براہ کرم یہ لکھے کہ ریاستی بینک نے کبھی بھی کرپٹو کو غیر قانونی قرار نہیں دیا۔ وقار ذکا کیس میں اسے ایک بڑی فتح سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی اس بات پر اسٹیٹ بینک کرپٹو پر پابندی نہیں لگا سکتا تھا ۔ وہ کہتے ہیں آپ جب تک کرپٹو کا استعمال کرتے ہیں یا پاکستان سے باہر پیسے نہیں بھیجتے تو ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو آپ کو سزا دے سکے۔
قازقستان نے کرپٹو کرنسی کی مدد میں ٹیکس وصول کر کے 7 ملین امریکی ڈالر کمائے
وقار ذکا نے قازقستان کے بارے میں کہا کہ وہاں کی گورنمنٹ نے 2022 میں صرف کرپٹو کرنسی کی مد میں ٹیکس وصول کر کے 7 ملین یو ایس ڈالرز کمائے ہیں۔ اسی طرح انڈیا کی گورنمنٹ نے 60 کروڑ ڈالر ٹیکس کی مد میں کمائے ہیں اسی طرح دیگر کئی ممالک کرپٹو کرنسی کے ذریعے ٹکیس کی مدد میں خاصہ پیسہ کما رہے ہیں مگر پاکستان میں موجود بابوں کو اس کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے کتنے فوائد ہیں۔