آج سے ٹھیک 8 سال پہلے چین کے صدر شی جن پنگ جب اپریل 2015 میں پاکستان آئے اور سی پیک کا افتتاح کیا تو پاکستان بھر کے میڈیا نے خوب شادیانے بجائے کہ پاکستان کے دن اب پھرنے لگے ہیں۔ چین کے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان اب دنیا کی اہم تجارتی گزرگاہ کے ساتھ ساتھ ایک اہم صنعتی ملک بننے جا رہا ہے۔ مملکت خداد میں سڑکوں کے جال، بجلی کے نئے کارخانوں کے ساتھ ساتھ سی پیک کا جو سب سے اہم جزو تھا وہ تھا سپیشل اکنامک زونز۔ ان اسپیشل اقتصادی زوزنز مین نئی فیکٹریاں لگانے کی نوید سنائی گئی اور اس مقصد کے لیے زور و شور سے کام جاری ہو گیا۔
ان اقتصادی زونز کو قائم کرنے کی ذمہ داری بورڈ آف انویسٹمنٹ کو سونپی گئی کہ وہ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں صنعتیں لگانے کے لیے سہولیات فراہم کرے۔ سی پیک منصوبے کے تحت 2018 کے اختتام تک چین نے 27 ارب دالر کی سرمیہ کاری کی جبکہ اگلے 3 سالوں یعنی 2021 تک مزید 19 ارب دالر کی سرمایہ کاری ہونی تھی۔ سوال یہ ہے کیا حکومت پاکستان سی پیک کے تحت اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر پائی؟
آئیے ذرا اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ سی پیک پیکج میں اہداف کیا تھے اور کہاں کہاں پاکستان سے غلطیاں ہوئی جس کی وجہ سے نہ صرف ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوئے بلکہ اپنے اہم تذویراتی دوست ملک چین کو بھی ناراض کر بیٹھے؟ میرے خیال میں سی پیک پراجیکٹس کی تاخیر میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ سی پیک پر عملدرآمد کے لیے دونوں ممالک نے ایک ہائی لیول جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) بنائی تھی جو کہ ان پراجیکٹس کی پراگریس کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرتی تھی۔
نومبر 2017 میں ہونے والی جے سی سی میٹنگ میں سی پیک کے تمام منصوبوں کی پراگریس پراعتماد کا اظہار کیا گیا۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کے سر پر تبدیلی کا بخار سوار تھا۔ اسی تبدیلی کے شوق میں نئی حکومت انسٹال کی گئی، جس کے بعد سی پیک پراجیکٹس میں تاخیر ہوتی گئی اور چین نے بھی اس حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
سی پیک کا ایک اہم عنصر تھا اسپیشل اکنامک زون افسوس اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوپایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تھی سیاسی عدم استحکام۔ 2013 سے لے کر 2018 تک پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت تھی، خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی، تو پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پیپلزپارٹی تو بلوچستان میں مخلوط حکومت۔ جبکہ مرکز میں ن لیگ مسند اقتدار پر تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا کہ کس صوبے میں اور کہاں کہاں یہ اسپیشل اقتصادی زون قائم کیے جائیں۔
جبکہ اسٹیبلشمنٹ سی پیک اپنی نگرانی میں لینا چاہتی تھی جسے ن لیگ کی قیادت دینے کو تیار نہیں تھی۔ انہی اختلافات اور مفادات کی جنگ میں ایک گیم چینجر منصوبہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرپایا جو پاکستان کی تقدیر بدلنے کا راستہ ہوسکتا تھا۔ سی پیک کی مثال دینے کا واحد مقصد یہ تھا کہ اپنے قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے کہ گرین ویژن کی طرح سی پیک کے آغاز میں بھی اسی طرح میڈیا نے خوب کوریج دی لیکن بعد میں ہماری پالیسیوں اور مفادات کے ٹکراو نے ایک اچھے منصوبے کے زریعے ملک کی قسمت بدلنے کا ایک سنہری موقع کھو دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا گرین ویژن قابل عمل ہے؟ اس ویژن کے تحت ملک میں سرمایہ کاری کے کیا کیا مواقع ہیں؟ گرین ویژن کو درپیش چیلنجز کیا ہیں؟ ان چیلنجز کا کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور کیسے خلیجی ممالک جو کہ پاکستان کے لیے ایک بہترین پوٹینشل مارکیٹ ہے اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ گرین ویژن کے چیلنجز اور مواقع سے پہلے میں آپ کو میکسیکو اور امریکہ کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق 2022 میں میکسیکو کی دنیا بھر میں کل زرعی برآمدات 46 ارب ڈالر تھیں جن میں سے 80 فیصد برآمدات صرف امریکہ کے لیے تھی۔
امریکی وزارت زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق میکسیکو کی برآمدات میں سے 83.6 فیصد برآمدات سبزیوں، پھلوں اور مشروبات پر مشتمل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں امریکہ ایک بہت بڑی منڈی ہے اور ہمسایہ ہونے کے ناطے میکسیکو اس سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن یہ فائدہ میکسیکو نے راتوں رات نہیں اٹھایا اس کے لیے کئی دہائیوں سے میکسیکن حکومت کی پالیسیوں میں تسلسل کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے میں جدت، جدید تجارتی آپریشنز، وسائل کی نچلے لیول پر تقسیم، دیہی ترقی کے لیے لیے جانے والے اقدامات، اور کسانوں کے لیے آسان اقساط میں قرضے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کی ترقی اور دیہی ترقی کے لیے خصوصی فنڈز کا قیام جیسے بے شمار اقدامات کیے گئے۔
پاکستان بھی اس گرین ویژن کے تحت خلیجی ممالک کی مارکیٹ قابو کر سکتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی ان خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں اوربیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہمیشہ پاکستانی اشیاء خریدنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیا ہم اعلیٰ کوالٹی کے زرعی اجناس پیدا کر کے ان خلیجی ممالک کو برآمد کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ہندوستانی زرعی مصنوعات کا مقابلہ ان منڈیوں میں کرسکتے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں اپنے ماضی کے تجربات خاص طور پر سی پیک اور دیگر ایسے تجربوں سے سیکھتے ہوئے قومی سطح پر ایسی پالیسی بنانی ہوگی جو کہ تسلسل کے ساتھ عمل پیرا رہے۔
حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو سرمایہ کاری اور صنعتوں کے حوالے سے پالیسی کا تسلسل قائم رہنا چاہیے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے اگر کوئی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اسے مکمل سپورٹ فراہم کرے، جبکہ دیہی زرعی نظام کو جدید بنیادوں پر لانے کے لیے حکومت چھوٹے کسانوں کو آسان اقساط پر قرضے فراہم کرے، آبپاشی کے نظام میں جدت اور جدیدیت لائی جائے۔
زرعی اجناس کے پیدا کرنے کے بعد سب سے اہم مسئلہ چھوٹے کسانوں کی منڈی تک رسائی اور اچھے داموں فصل کی فروخت ہے اس کے لیے حکومت سرکاری سطح پر ایک وسیع اور جدید ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو فروغ دے تاکہ مڈل مین کی بجائے منافع سیدھا کسان کی جیب میں جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید زرعی ٹیکنالوجی دیہی علاقوں میں متعارف کرائی جائے۔ ان تمام اقدامات پر اگرتسلسل کے ساتھ عمل پیرا رہے تو یہ گرین ویژن نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ ملکی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے ورنہ ماضی کے کئی بڑے منصوبوں اور پراجیکٹس کی طرح یہ ویژن بھی سرکاری فائلوں کے ڈھیر میں گم ہوجائے گا۔