یہ جمعے کا دن تھا، دن بھر شدید گرمی رہی مگر شام کو اسلام آباد اور گرد نواح میں ساون کی بارش ہوئی جس سے موسم خوشگوار ہو گیا اور اہل و عیال کے ساتھ عاشر کے گھر جا پہنچے جسے پیار سے سب عاشو میاں کہتے ہیں۔ عمر میں کوئی 10 سال کے ہوں گے مگر ان کے خواب اور ارادوں نے مجھے بھی خوب متاثر کیا۔
میں چند لمحے ان کی خواہش کو لے کر سکتے میں رہا اور دل سے دعا کی کہ ہمارے ارادے اور خواہشات بھی کچھ ایسی ہی ہوں، عاشو میاں کے پاس ایک خاص قسم کا پرس تھا جس میں ہزار ہزار کے چند نوٹ اور کچھ پانچ سو کے تھے۔ اور ان کے مطابق یہ کوئی 12 ہزار 5 سو روپے کی رقم تھی۔
میں ویسے تو ان کے گھر مہمان تھا مگر بے تکلفی بھی تھی۔ میں نے ان سے تقاضہ کیا کہ یہ پیسے مجھے دے دیں تا کہ میں اچھا سا ڈنر کر سکوں، انہوں نے انکار نا کیا مگر خاموش رہے میں نے پھر اسرار کیا کہ آپ مجھے خود ساتھ لے چلیں تاکہ میں اچھا سا کھانا کھا لوں۔ اب کی بار اُس معصوم سے رہا نہ گیا۔
عاشو میاں بولے یہ پیسے میرے کم ہو جائیں گے میں یہ جمع کر رہا ہوں میں نے عمرے پر جانا ہے۔ مگر شاید جب تک جمع ہوں گے عمرہ اور مہنگا ہو جائے گا، عمر 10 سال، معصوم سا چہرہ اور خواہش بھی وہ جسے سنتے ہی انسان دنگ رہ جائے۔
جس عمر میں انہیں کھیل کود سے فرصت نہیں ہونی چاہیے اس وقت ان کی خواہش اللہ اور اس کے نبی کے گھر کی حاضری ہے۔ شاید یہ بُلانے والوں کی دین ہے کہ وہ جسے چاہتے ہیں ان کے بلاوے کا بندوبست بھی ہو ہی جاتا ہے۔
یہاں یہ مثال عاشو میاں کے جذبے کی تھی جو انہوں نے ننھی سی عمر میں اور کوئی خواہش رکھی ہی نہیں۔ بس اسی حسرت کے ساتھ کچھ رقم جوڑ رہا ہے کہ اللہ کے دربار میں حاضری ہو جائے۔
اس گفتگو کے دوران وہ اپنے کھیل میں مگن تھا اور میں کافی دیر اس کے چہرے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھا کہ ایک روز جب اس کی خواہش پوری ہو گی تو حرم میں حاضری کے وقت اس کی آنکھوں کا منظر کیا ہو گا۔ اس کے دل میں کیا سکوں اور خوشی ہو گی۔
جانے کا وقت تھا میں نے پھر کہا کہ عاشو میاں تھوڑے سے پیسے دے دیں تو کہنے لگے کم ہو جائیں گے۔ گاڑی آگے چلی لیکن میں اسی معصوم کے الفاظ میں گم تھا کہ زندگی کے جمبھیلوں سے نکل کر اور بھی بڑی خواہشات بھی رکھنی چاہئیں۔
عاشر کو یہ سوچ کسی اور نے دی ہو یا نا دی ہو مگر یہ والدین کی تربیت کا اثر ان کی دعائیں اور ماحول بھی ہو گا جس نے تڑپ پیدا کردی، دعا کرتا ہوں کہ اس کے پیسوں کا پرس جلد بھر جائے اور اس کی اللہ کے گھر جانے کی مراد بر آئے۔
ایک شعر چلتے چلتے یاد آ گیا۔
تمھارا کام ہے بس ان کے در کی آرزو رکھنا
یہ ان کا کام ہے خواہش کی آبرو رکھنا