پاکستان میں ایک مرتبہ پھر آئینی حکومت اپنی مدت مکمل کرکے انتخابات میں جانے کے لیے تیار ہو گئی ہے جس کے لیے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے آئندہ انتخابات کے لیے صوبوں میں تنظیم سازی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ یوں تو بلوچستان آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے لیکن صوبے کی جغرافیائی اہمیّت کے باعث یہاں مرکز کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔
عام انتخابات سے قبل مرکز کی بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) شامل ہیں صوبے کی اہم سیاسی شخصیات کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے رسہ کشی کر رہی ہیں۔ ہر بار کی طرح بلوچستان میں اس بار بھی عام انتخابات سے قبل صوبے کی بڑی سیاسی، سماجی، قبائلی و مذہبی شخصیات اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کو تیار ہیں۔
چند ماہ قبل صوبے میں موجودہ سیاسی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی میں جانے کے لیے قطاریں لگائے کھڑے تھے اس دوران صوبے کی بڑی قبائلی و سیاسی شخصیات نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
مزید پڑھیں
ان رہنماؤں میں نواب ثناءاللہ خان زہری، میر نعمت زہری، عارف جان محمد حسنی، سابق وزیر خزانہ ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، نوابزادہ جمال رئیسانی، سردار نور احمد بنگلزئی، سید حسنین ہاشمی، سردار فتح محمد حسنی، جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ سمیت کئی اہم سیاسی رہنماؤں نے پی پی پی کا دامن تھام لیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح جمیعت علمائے اسلام (ف) بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی اور سابق وزیر اعلٰی بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس دوڑ میں مسلم لیگ نواز بھی برابر کی شامل رہی ہے۔
مسلم لیگ نواز نے بلوچستان میں اپنے سیاسی ڈھانچے کو مضبوط کرنے لیے پہلے پارٹی کے صوبائی صدر کو تبدیل کرتے ہوئے جعفر مندوخیل کا انتخاب کیا جس کے بعد تحصیل کی سطح پر لوگ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔ تاہم ان دنوں صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک چند بڑے نام مسلم لیگ ن سے ہاتھ ملانے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق چند روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں سے اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات میں نواب چنگیز مری ، دوستین ڈومکی، سینیٹر سرفراز بگٹی، صوبائی وزراء محمد خان طور اتمانخیل، محمد خان لہڑی، سینیٹر انور الحق کاکڑ، مسعود لونی، غفور لہڑی، شعیب نوشیروانی ، طارق مسوری بگٹی شامل تھے۔
ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان کو پنجاب اپنے بجٹ سے 11 ارب روپے دے رہا ہے جس کے بعد صوبے کی احساس محرومی میں کمی ہوگی، شہباز شریف نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ حکومتی مراعات نمائندوں کے ذریعے عوام تک پہنچیں۔
اس ملاقات میں اہم بات یہ رہی کہ ملاقات میں موجود سیاسی رہنماؤں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ جس کے لیے شمولیتی پروگرام سے متعلق لائحہ عمل تشکیل دے دیا گیا ہے۔
ذرائع کی جانب سے امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ کی تحلیل کے بعد کوئٹہ میں شمولیتی پروگرام منعقد کیا جائے گا جس میں وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور ن لیگی مرکزی قیادت شریک ہوگی۔ اس شمولیتی پروگرام میں موجود سیاسی رہنما ن لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کریں گے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال خان اور مسلم لیگ ن کے سینئررہنماؤں کے درمیان دوبارہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ جام کمال خان بھی مسلم لیگ ن کی آواز پر لبیک کہیں گے۔