ورلڈ جونیئراسکواش چیمپئن شپ جیتنے کے بعد پشاور کے نواحی علاقے نوئے کلے میں واقع حمزہ خان کے گھر پر مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ حمزہ کے والد نیاز محمد خان کے چہرے پر خوشی دیدنی ہے جنہوں نے اپنی محدود آمدنی اورسہولیات کے فقدان کے باوجود بھرپور محنت کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی اسکواش سے وابستگی کی حوصلہ افزائی جاری رکھی۔
حمزہ خان پشاور کے نواحی علاقے نوئے کلے کے رہائشی ہیں، یہ علاقہ اسکواش کے کھیل کے حوالے سے عالمی سطح پر مشہور ہےاور عالمی ٹائٹل جیتنے والے سات کھلاڑیوں کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔
ان کے والد نیاز محمد خان سول ایوی ایشن اتھارٹی( سی اے اے) میں ملازم ہیں۔ یہ ان کی اس انتھک محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج حمزہ نے عالمی ٹائٹل جیت کر نہ صرف اپنے والد اور علاقے بلکہ ملک کا نام روشن کیا ہے۔
حمزہ بچپن میں کافی شرارتی تھا
نیاز محمد نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ حمزہ کی بچپن کی شرارتوں سے عاجز تھے، وہ یاتو چھت پرپتنگ اڑاتا یاپھرگھر سے باہر گلی محلے میں کھیل کود میں مشغول رہتا تھا۔ نیاز محمد خان اپنے بیٹے کے اس طرز عمل پر پریشان رہتے تھے۔
’مجھے ہر وقت فکر مند لاحق رہتی کہ میرے بیٹے کو کچھ ہو نہ جائے، چنانچہ میں نے حمزہ کو مصروف اور گلی محلے کی سرگرمیوں سےدور رکھنے کے لیے اسے اسکواش کے کھیل کی طرف مائل کیا۔
نیاز محمد خان کے مطابق ان کے علاقے میں چونکہ کورٹ نہیں،اس لیے انہیں حمزہ کو پریکٹس کرانے کےلئے کینٹ میں لے جانا پڑتا تھا، پہلی بار جب وہ حمزہ کو لے کردن دو بجے وہاں پہنچے تو وہاں رش تھااور انہیں پانچ گھنٹے تک انتظار کرناپڑا، پھر جب سات بجے پریکٹس کے لیے حمزہ کی باری آئی تو وہ بھی صرف تیس منٹ کے لیے۔
حمزہ کی پریکٹس کا پہلا دن مایوس کیوں تھا؟
نیاز محمد کہتے ہیں کہ پریکٹس کے پہلے روز انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ ’وہاں بچے زیادہ تھے اور پریکٹس کے لیے وقت بہت کم، مجھے لگا کہ شاید یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔‘
نیاز محمدنے حمزہ کو پریکٹس کے لیے کم وقت ملنے کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا، وہ ڈیوٹی سے گھر واپسی پر آرام کرنے کے بجائے حمزہ کو پریکٹس کےلیے اسکواش کورٹ لے جاتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حمزہ کی اسکواش کے کھیل میں لگن اور توجہ کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ان کی حوصلہ افزائی جاری رکھی اور اس کے آگے بڑھنے کےلیے اپنے سکون اور آرام کی قربانی بھی دی۔ وہ پریکٹس کے دوران ہر وقت بیٹے کے ساتھ ہوتے تھے۔
نیاز محمد بتاتے ہیں کہ ان کی تنخواہ اتنی معقول نہیں تھی کہ گاڑی یا موٹر سائیکل خرید پاتے چنانچہ وہ سائیکل پر سفر کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ حمزہ چونکہ کمزور تھا اور زیادہ پیدل نہیں چل سکتا تھا اسی لیے وہ خود اسے سائیکل پر لے کر جاتے اور واپس لاتے۔ خواہ بارش ہو، سردی یا شدید گرمی وہ ہر حال میں حمزہ کو لے کراسکواش کورٹ پہنچ جاتے تھے۔
‘گھر یلو اخراجات محدود کیے، قرضہ لے کر حمزہ کو آگے بڑھایا’
نیاز محمد بتاتے ہیں کہ محدود تنخواہ میں وہ مشکل سے ہی گھر چلا رہے تھے ،پھر جب حمزہ نے ٹورنامنٹس میں حصہ لینا شروع کردیا تو اخراجات مزید بڑھ گئے۔ اسکواش کے سامان کی قیمت بھی زیادہ تھی، جسے خریدنا متوسط طبقے کے فرد کے بس کی بات نہیں تھی۔
نیاز محمد کے مطابق یہ ان کے لیے مشکل وقت تھا، انہوں نے بیوی سے مشورہ کرکے پہلے ممکنہ حد تک گھر کے اخراجات کم کیے۔ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کھانا پیناکم کردیا اور پیسے بچا کر حمزہ کے لیے اسکواش کے کھیل کا سامان خریدا، اس کے لیے کچھ جاننے والوں سے قرضہ بھی لینا پڑا ۔‘
خواہش ہے حمزہ عالمی اسکواش چیمپیئن شپ جیتنے والا نوئے کلے کا 8 واں کھلاڑی بنے
نیاز محمد اپنے بیٹے حمزہ کی کامیابی سے بے حد خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی محنت رنگ لے آئی اور وہ اپنے ساری تکالیف ، دکھ اور مشکلات بھول گئے ہیں۔انہوں نےکہاکہ حمزہ کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی شروع ہوا ہے، نیاز محمد کےمطابق نوئے کلے کے سات سپوت عالمی سکواش چیمپئن کا ٹائٹل جیت کرعلاقے اور پاکستان کانام روشن کرچکے ہیں اور ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ حمزہ عالمی اسکواش چیمپئن جیتنے والا نوئے کلے کا 8 واں کھلاڑی ہو جس کے لیے وہ محنت بھی کر رہے ہیں۔
‘میری کامیابی کے پیچھے والدین کا ہاتھ ہے’
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حمزہ خان نے اپنی کامیابی کو والدین کی محنت کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کا کہناہےکہ والد نے ہر قدم پر اسے سپورٹ کیا اور کبھی کسی چیز کی کمی ہونے نہیں دی۔ حمزہ بتاتے ہیں کہ ان کے ماموں شاہد زمان بھی اسکواش کھلاڑی ہیں۔ جنہیں کھیلتے ہوئے دیکھ کر انہیں آگے بڑھنے کاحوصلہ اور مدد ملی، حمزہ کو شکوہ کہ ان علاقے میں سکواش یا دیگر کھیلوں کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
‘کڑے وقت میں کبھی مایوس نہیں ہوا’
حمزہ خان نے بتایا کہ مسائل سے بھرے نوئے کلے جیسے پسماندہ علاقے سے اٹھ کر عالمی ٹائٹل جیتنے تک انہیں ہر قدم میں مشکلات کا سامنا رہا، پریکٹس کے لیے روزانہ طویل فاصلہ طے کرنا، معاشی تنگی اور علاقے میں سہولیات نہ ہوناان کے لیے کڑا وقت تھا لیکن اس کے باوجود وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے اور محنت جاری رکھی۔ ان کا ایمان ہے کہ مشکل حالات کا ڈٹ کرمقابلہ کرنے کے بعد ہی کامیابی ملتی ہے۔
حمزہ کی آنکھوں میں جیت کا جذبہ دیکھا
سابق عالمی اسکواش چیمپیئن قمرزمان کا تعلق بھی نوئے کلے سے ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حمزہ جب پریکٹس کے لیے اسکواش کمپلیکس آتے تھے تو ان کا جذبہ دیدنی ہوتا تھا۔ ان میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی جستجو دیکھی۔
’ حمزہ جب آسٹریلیا میں میچ کے لیے کورٹ میں آتا تو اس وقت بھی اس کی آنکھوں جیت کا جذبہ پہلے جیسا ہی نظر آتا تھا۔ حمزہ آج جو کچھ بھی ہے اس کامیابی میں اس کے والد کا بہت اہم کردار ہے۔‘
نوئے کلے میں سہولیات کا فقدان
نوئے کلے پشاور کے باچا خان ایئر پورٹ سے ملحقہ باڑہ روڈ پر واقع ہے، یہ قدیم گاؤں اب پشاور کے شہری علاقے میں شامل ہے،یہ تنگ اور گنجان آباد علاقہ ہے جس میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق یہاں بجلی اور نکاسی کا نظام انتہائی ابتر ہے۔
قمر زمان کہتے ہیں کہ بلاشبہ نوئے کلے اسکواش کے لیے زرخیز علاقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اسکواش کا عالمی ٹائٹل جیتنے والے سات کھلاڑیوں کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ ’اس کے باوجود علاقے میں کوئی ایک اسکواش کورٹ بھی نہیں بنا جب کہ دیگر کھیلوں کے لیے بھی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘