امریکا نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کے اس موقف سے تحریک انصاف کے بیانیہ کو دھچکا لگا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ کے درران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پہلی اور دوسری گرفتاری پر ہمارا ایک ہی مؤقف ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
میتھیو ملر نے کہا کہ بعض مقدمات ایسے بے بنیاد ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں امریکہ سمجھتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن ابھی تک ہم عمران خان کی گرفتاری پر ایسے کسی حتمی نتیجے پرنہیں پہنچے ہیں۔
واشنگٹن میں مقیم سینیئرپاکستانی صحافی انور اقبال نے وائس آف امریکا سے گفتگو میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویسے تو امریکہ نے عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں پوشیدہ وضاحت قابل غور ہے۔
انوار اقبال کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بیان سے یہ نتیجہ اخد کیا جا سکتا ہے امریکا عمران خان پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد نہیں سمجھتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اس مؤقف سے تحریک انصاف کو مایوسی ہو گی کیوں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی کوشش ہے کہ کسی طرح بائیڈن انتظامیہ عمران خان کے حق میں کچھ بیان دے۔
’بائیڈن انتظامیہ کے مؤقف سے تحریک انصاف کے رہنما یا تو چُپ کر کے بیٹھ جائیں گے یا مزید بولیں گے لیکن بائیڈن انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔‘
صحافی انور اقبال نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کے بعد پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بہت خوش ہوں گی کہ عمران خان کی گرفتاری کو امریکہ نے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے لیکن تحریک انصاف کو مایوسی ہوئی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بعد جب تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو امریکی کانگریس کے اجلاس میں اس کی مذمت کی گئی لیکن اب عمران خان کی گرفتاری پر امریکا کے کسی اعلٰی عہدیدار بشمول زلمے خلیل زاد کسی نے اب تک لب کشائی نہیں کی ہے۔
’امریکا میں پاکستانی شہریوں کی جڑیں کافی پھیل گئی ہیں اور جب بھی پاکستان میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو یہ شہری اس پر اپنا رد عمل دیں گے، یہ تاثر غلط ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی شہری حکومت کے خلاف سازش میں مصروف ہیں، امریکا میں عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج صرف سیاسی احتجاج ہے۔‘