اندرون شہر جب گلی محلے کے لونڈے لپاڑے آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں، ایسے میں ایک فریق چھتوں پر چڑھے وہ بزرگ بھی ہوتے ہیں جن کی حالت ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘ کے مصداق ہوتی ہے۔ ایسے بزرگ ایک محتاط فاصلے سے مسلسل اپنے پسندیدہ گروہ کو ہلہ شیری دیتے ہیں۔ لڑائی میں اپنے جتھے کی ہار کی صورت میں ان کے پاس گالی اور بدعا کے آپشن موجود ہوتے ہیں۔
یہ جہاندیدہ لوگ خود بہت دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ میدان کارزار کا منظر دیکھتے ہیں لیکن کبھی خود دست و گریبان ہونے کی نوبت ان کے ہاں نہیں آتی۔ سوچیے اگر ان محتاط لوگوں کو کبھی گھمسان کے رن میں خود اترنا پڑے تو کیا تماشا ہو؟ یہ وہ بات ہے جو صدرعارف علوی کو ٹویٹ کرنے سے پہلا سوچنا چاہیے تھی۔
صدر عارف علوی کی ساری سیاست دوسروں کے اعمال سے تعبیر ہے۔ وہ زمانہ بھی تھا جب کراچی میں پانی ٹخنے سے اوپر نہیں گیا تھا اورعارف علوی نے کشتی کا ڈول ڈال دیا۔ اس زمانے میں اس شجاعت کے کارنامے پر بڑی بریکنگ نیوز چلیں۔ اس لیے کہ اس وقت زمانہ خود اس سیلاب کے ساتھ تھا۔ عارف علوی ہیرو بن گئے۔ اس میں کوئی کمال عارف علوی کا نہیں بلکہ سارا کارنامہ اس سیلاب کا تھا جس کے ساتھ زمانہ تھا۔
آپ کو یاد ہی ہو گا جب عارف علوی نے ہانپتے کانپتے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے کی نوید عمران خان کو سنائی تھی تو انہیں کتنی شاباش ملی تھی لیکن اس وقت بھی حملہ کسی اور نے کیا تھا، عارف علوی صرف چھت سے لونڈے لپاڑوں کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ انہوں نے خود حملہ میں حصہ لینے سے پرہیز فرمایا۔
اسی طرح قارئین کو یاد ہو گا کہ اپنے عہدے کے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے گورنر ہاؤس کراچی میں اپنے بیٹے کے کلینک کے لیے ایک تگڑا معاہدہ بھی انہوں نے ہی کیا تھا جس پر جب شور مچا تو یہ بات کہہ کر جان چھڑا لی کہ جگہ کا انتخاب درست نہیں تھا مگر اس واقعے میں چھپی کاروباری حکمت سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔
اب صدر مملکت کی ایوان صدر سے رخصتی کے دن قریب آ رہے ہیں۔ اس منصب پر بیٹھ کر انہوں نے 5 سال اقتدار کا لطف بھی لیا اور پارٹی کے کارکن ہونے کا بھی بارہا ثبوت دیا۔ کبھی کسی کا حلف نہ لینے پر ضد میں آگئے، کبھی اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے بیانات دینے پر جٹ گئے، کبھی ججوں کے روپ میں بیٹھے تحریک انصاف کے کارکنوں کو خفیہ کمک پہنچائی، کبھی کسی بل پر دستخط کرنے سے منحرف ہو گئے۔
صدر پاکستان کے محدود آئینی اختیارات کو جس بے طرح عارف علوی نے پامال کیا اس سے عہدے کا وقار بھی گیا اور صدارتی محل کی ناموس بھی دھڑام سے نیچے آ گری۔ صدر اس سارے عمل میں اپنے آپ کو کسی احتساب سے بالاتر سمجھتے رہے۔
ایک تو ماضی کے سہاروں نے انہیں یہ درس دیا کہ وہ جو چاہیں اس ملک کے آئین و قانون سے کریں، ان کی پکڑ نہیں ہو گی اور دوسرا ان کے عہدے نے یہ تیقن بھی عطا کیا کہ صدر کسی بھی سرزنش سے مبرا ہوتا ہے۔ اس کی تادیب ہو سکتی ہے نہ تقصیر پر کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس زعم میں صدر ذی وقار نے ایک ٹویٹ فرما دی جس کا خمیازہ اب سارے پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پھر انہوں نے جلتی پر تیل اس طرح چھڑکا کہ اپنے سیکرٹری کو فارغ کر دیا۔ اس طرح ایک دن وہ ٹوئیٹر پر ٹرینڈ تو ضرور کرتے رہے مگر اب مرحلہ کچھ اور ہے۔ اب انہیں ایک ماہ کے اندر اندر چھت سے اتر کر گلیوں کا مسافر ہونا ہے۔ ان گلیوں کا مسافر جن میں لوٹ مار کے مناظر وہ ہمیشہ چھت سے دیکھا کرتے تھے
صدر مملکت کو اس بات کا شاید ادراک نہیں کہ 9 مئی کے بعد یہ ملک تبدیل ہو چکا ہے، سونامی ملبے اور غلاظت کے ڈھیر لگا کر اترچکا ہے اور تبدیلی کا نعرہ منی سے بھی زیادہ بدنام ہو چکا ہے۔ اب کوئی لانگ مارچ کی جرات نہیں رکھتا، اب کوئی دھرنوں کی دھمکی نہیں دیتا، اب کوئی نفرت کی سرعام ترویج نہیں کرتا۔ اب جتھوں کی سیاست بے نقاب ہو چکی ہے۔
صدر مملکت کی متنازعہ ٹویٹ سے ساری دنیا میں یہ پیغام گیا جیسے نہ اس ملک میں کوئی قانون ہے نہ آئین، نہ کسی عوامی عہدے کا احترام ہے نہ کسی کے منشور کا کوئی پاس ہے۔ یہاں جب چاہے کسی بڑے کا عملہ اس کا کام کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ جب چاہے کسی کا عملہ اہم دستاویزات گم کرسکتا ہے۔ جب چاہے کسی کو عملہ سے مغوی بنایا جا سکتا ہے۔
دنیا کو شاید یہی پیغام دینا مقصود تھا۔ پیغام کا ہدف وہی ادارہ تھا جس کے خلاف 9 مئی کا سانحہ بپا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اپنی صدارت کے آخری دنوں میں عارف علوی نے ملک کے نام کو جو بٹہ لگایا ہے وہ تاریخ میں ایک دھبے کی طرح رہ جائے گا۔ اب دنیا کو چاہے کتنی تاویلیں دیتے رہیں کہ صدر کے منصب پر بیٹھا یہ شخص نہ جمہوریت کا چیمپیئن ہے نہ اس کو ملک کا مفاد عزیز ہے، نہ اس کو عوام کی امنگوں اور آرزوں سے کوئی علاقہ ہے نہ اس کی سوچ جمہوری ہے۔ یہ شخص ایک ناکام تجربے کے نتیجے میں صدر کے عہدے پر متمکن ہوا ہے۔
کیا ہوا ٹویٹ کمان سے نکلے تیر کی طرح ہوتا ہے، ڈیلیٹ کرنے سے بھی کدورتیں ختم نہیں ہوتیں۔ جو جگ ہنسائی ملک کی ہوچکی ہے اس کا ازالہ اب کسی طور ممکن نہیں ہے۔ اس ٹویٹ سے ناموس وطن کو زک پہنچی ہے۔ یہ چوٹ جانتے بوجھتے لگائی گئی ہے۔ یہ زخم اس لیے دیا گیا کہ شاید اس کا علاج تو ہو جائے مگر اس کا نشان ہمیشہ رہے گا۔
وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ چند دنوں کے صدر کو صدارتی محل کی چھت سے اترنا ہے۔ دور پار سے منظر کا تماشہ دیکھنے والے کو اب خود تماشہ بننا ہے۔ اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔