سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، تاہم غلطیوں کے باوجود ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں آج مداخلت نہیں کریں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ کا حصہ تھے۔
چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر سماعت کل 1 بجے تک ملتوی کردی ہے، تاہم اس سے قبل انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے 4 اگست کو مقدمہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کیا۔ ٹرائل کورٹ نے اگلے دن تین دفعہ مقدمہ کال کر کے فیصلہ کر دیا۔ غلطیوں کے باوجود ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں آج مداخلت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا؛ کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے، کل ہائی کورٹ اس مقدمے کو سنے اس کے بعد ایک بجے آپ ہمارے پاس آئیں۔
آج عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ 6 ارکان قومی اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف اثاثوں سے متعلق جھوٹا ڈیکلیئریشن جمع کرانے کا الزام لگاتے ہوئے اسپیکر کو ریفرنس بھیجا، جو انہوں نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوادیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استفسار پر لطیف کھوسہ نے الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 اور سب سیکشن 4 پڑھنے کے بعد کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن 120 دنون میں ہی کاروائی کرسکتا ہے۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے دریافت کیا کہ کیا ایک رکن اسمبلی دوسرے کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے، لطیف کھوسہ بولے؛ کوئی ممبر ریفرنس نہیں بھیج الیکشن کمیش خود بھی ایک مقررہ وقت میں کاروائی کرسکتا ہے۔
لطیف کھوسہ کے مطابق رکن پارلیمنٹ ہر سال 31 دسمبر تک اپنے، اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کا پابند ہے۔ انہوں نے عدالت سے اس مقدمہ کو ختم کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اصل کیس تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کا ہے، اگر آپ کی اپیل منظور ہوجاتی ہے تو ٹرائل کورٹ تو فیصلہ سنا چکی ہے، پھر یہ کیس کہاں جائے گا؟
مزید پڑھیں
جسٹس مظاہر اکبر نقوی بولے؛ آپ نے شکایت کی قانونی حیشت کو چیلج ہی نہیں کیا؟ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے شکایت کی قانونی حیشت کو ہی چیلج کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ آپ کا کیس اب ٹرائل کورٹ میں زیر التوا نہیں، اپ کا کیس سن کر اب ہم کہاں بھیجیں گے۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ اس ساری مشق کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے سکتی ہے کیونکہ انصاف تک کی رسائی کو روکا جاتا رہا ۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ کیا آپ کہتے ہیں شکایت ایڈیشنل سیشن جج کے بجائے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی۔
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کرنے پر لاہور ہائیکورٹ نے اسلام آباد کی سیشن کورٹ کو درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دینے سے روک۔ جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ عدالتی حکم عدولی پر ہائیکورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درخواست دائر کرنے والا مجاز شخص نہیں تھا۔ عدالتی استفسار پر انہوں نے مزید بتایا کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہیے تھی،۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے لطیف کھوسہ کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال دہرانے کا کہا۔
چیف جسٹس بولے؛ آپ کے مطابق اس معاملے پر ابتدائی کاروائی مجسٹریٹ کرکے ٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے۔ جسٹس مندوخیل کا کہنا تھا کہ قانون میں لکھا ہے کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے؟
عمران خان کی وکیل لطیف کھوسہ بولے؛ اس کا مطلب ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں۔ قتل نہ ہو تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ الیکش ایکٹ کے تحت شکایت کون درج کروائے گا۔
لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ شکایت الیکشن کمیشن فائل کرے گا اور شکایت بھیجنے کی اتھارٹی کسی اور کو دے گا۔ انہوں نے عدالت سے ’الیکشن کمیشن ہے کیا؟‘ اس کی تعریف بھی دیکھنے کا کہا۔ بولے؛ آپ کے دائیں اور بائیں بہت سمجھدار لوگ بیٹھے ہیں اور بائیں طرف والے تو بہت ہی سمجھدار ہیں۔ واضھ رہے کہ بائیں جانب جسٹس مظاہر نقوی بیٹھے تھے۔
لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن خود الیکشن کمیشن نہیں ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ آپ کا کیس یہ نہیں ہے، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ان کی درخواست یہی ہے کہ شکایت مجاز شخص نے دائر نہیں کی، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو الیکشن کمیشن نے اتھارٹی نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اختیارات کو صرف الیکشن کمیشن نیچے منتقل کرسکتا ہے، سیکریٹری الیکشن کمیشن بذات خود الیکشن کمیشن نہیں، الیکشن کمیشن کیا ہے اس کی تعریف پڑھیں، چیف الیکشن کمشنر سمیت چاروں صوبوں کے ارکان سے مل کر الیکشن کمیشن بنتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ وہ اگر اپنی حد تک بات کریں تو اس معاملے کا فیصلہ تو ہائی کورٹ میں اپیل کے ساتھ ہوگا، چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے ہائی کورٹ میں یہ سوال اٹھائے؟ کیا ہائی کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا کہ وہ یہاں آگئے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان نکات پر فیصلہ کریں یا انہیں ہائی کورٹ کے لیے ہائی لائٹ کریں۔
لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ عمران خان کو ایک ایسی عدالت نے سزا سنائی جس کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہائی کورٹ اپیل میں سن سکتی ہے، آپ نے 5 اگست کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلج کر رکھا ہے۔ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ بار بار اسی جج کو کیس ریمانڈ بیک کرتی رہی، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اب تو ریمانڈ بیک ہونے پر ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ سناچکی۔ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ان کے موکل کے ساتھ مذاق ہوا ہے، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پہلے سماعت ہونے کا معامہ طے ہوگا، ہائیکورٹ نے اس پر کچھ نکات پر ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے کا کہا۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے ان نکات کو گھاس بھی نہیں ڈالی۔ جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ آپ ہر بات پرہائیکورٹ پر اعتراض اُٹھاتے ہیں،آپ فیصلوں پر اعتراض اٹھائیں ہائیکورٹ پر نہیں،آپ کو ہائیکورٹ کے فیصلے پسند نہیں آئے آپ ہمارے پاس آ گئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ یہ بہت اہم معاملہ ہے فیصلے پبلک ہوتے ہیں، فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے، ادارے ایسے ہی کام کر سکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ دینے کے کتنے دن بعد شکایت بھیجی، جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ قانون میں دنوں کا تعین اثاثوں کے تفصیل جمع کرانے کے بعد سے لکھا ہے، انہوں نے اس موقع پر متعلقہ قانون پڑھ کر بھی سنایا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ 342 اسمبلی ممبران پھر صوبائی ممبران سب کی تفصیل الیکشن کمشن 120 دن میں کیسے دیکھ سکتا ہے؟ 120 دن کہاں سے شروع ہوں گے کے یہ دیکھنے کے لیے اپنا ذہن استعمال کرنا ہوگا۔ لطف کھوسہ نے ایک بار پھر کہا کہ ان کا مقدمہ بار بار ایک ہی جج کو بھجوایا گیا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کسی عدالت پر تعصب کا الزام نہیں لگا سکتے، سپریم کورٹ یہاں سول جج تک اپنے تمام ججز کا دفاع کرے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا تھا جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا، جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ وہ جج فیصلہ دیکر لندن روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے انہیں لندن والی بات نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ صرف یہ بتائیں ہائی کورٹ کے بتائے نکات پر ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا یا نہیں۔
لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا بلکہ کیس قابل سماعت ہونے کا اپنا سابقہ فیصلہ بحال کردیا، ان جج صاحب نے فیس بک پر چئیرمیں پی ٹی آئی کیخلاف زہر اگلا ہوا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، ہائی کورٹ نے 4 اگست کو مقدمہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کیا۔ ٹرائل کورٹ نے اگلے دن تین دفعہ مقدمہ کال کر کے فیصلہ کر دیا۔ غلطیوں کے باوجود ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں آج مداخلت نہیں کریں گے۔
سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کل 1 بجے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا؛ کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے، کل ہائی کورٹ اس مقدمے کو سنے اس کے بعد ایک بجے آپ ہمارے پاس آئیں۔
توشہ خانہ کیس پس منظر
چیئرمین تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 اگست کے فیصلوں کو عدالت عظمی میں چیلنج کررکھا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کا معاملہ واپس جج ہمایوں دلاور کو بھجوادیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے 5 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس کا ٹرائل معطل کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔
تاہم اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں 5 اگست کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی اور انہیں اسی روز لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔