بے بسی کی دو تصویریں

ہفتہ 26 اگست 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’بے بسی‘ کہنے کو ایک لفظ ہے، لیکن کبھی اسے زندگی میں بھگتنا پڑجائے تو اس کے معنی رگ رگ میں اُتر جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بے بسی کی تصویر چند دن قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھےدیکھی جس میں دو افراد کھڑے تھے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اس بدقسمت چیئر لفٹ ’ڈولی‘ کے مالک تھے جس میں وہ 8 افراد سوار تھے جو موت کو چھوکرمعجزاتی طور پر واپس آئے تھے۔

اس ’جرم‘ کی پاداش میں ان دونوں کو زندان کے پیچھے ڈال دیا گیاکہ آخر ان کو اس ’ڈولی‘ پر سوار کیا ہی کیوں گیا؟ مان لیتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے لیکن ریاست اندھی نہیں ہوتی۔ ریاست بھی بے بس افراد کے زخموں کی دوا نہ کرسکے اور نمک پاشی کا کام انجام دے تو ایسی ریاست کو ماں کا درجہ ضرور دیا جاسکتا ہے۔ مگر ایسی سوتیلی ماں جو ہر وقت بچوں کو نوچنے کے لیے تیار رہتی ہو۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات جیسے جنت نظیر علاقے کسی اور ملک کے پاس ہوں تو اربوں ڈالر کی آمدنی کا ذریعہ بن جائے، لیکن یہاں موجود آسمان کو چھوتی چوٹیاں اور بل کھاتی پگڈنڈیاں رکھنے والے بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ حادثہ تو کسی کے ساتھ ، کسی بھی وقت اور کہیں بھی ہو سکتا ہے لیکن اس قدر مجبوری اور بے بسی کے احساسات نے شاید ہی کبھی کسی کو یوں گھیرا ہو کہ خوف کے سائے میں آپ فضا میں لہراتے ہوئے کسی مدد کے منتظر ہوں، جس میں سانس لینا بھی دوبھر ہوجائے کہ کہیں تیز سانس کی حرکت سے ہی زندگی کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ ایسا ہی واقعہ آسمان کو چھوتے پہاڑوں کے دامن میں بٹگرام میں ہوا۔

پہاڑ کی بلند و بالا چوٹیوں پرعلم حاصل کرنے کی غرض سے جانے والے لوگوں کی مشکل زندگی ایک چوراہے پر کھڑی تھی اورپھر بالآخر 13 گھنٹے کے طویل ریسکیو آپریشن کے بعد چیئر لفٹ میں پھنسے 8 افراد کو بحفاظت بچالیا گیا۔ لیکن چیئر لفٹ (ڈولی) کے مالک اور آپریٹر کو ’غفلت‘ اور ’لاپرواہی‘ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئےمقدمہ درج کر کےگرفتار کر لیا گیا۔ ایک طرف ان حضرات کی حوالات میں لی گئی تصویر تودوسری طرف ہوا میں لہراتی چیئر لفٹ کا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ اوردماغ میں کئی سوالات کہ کیسے حالات انہیں یہ خطرہ مول لینے پر مجبور کرتے ہیں؟

ظاہر ہے غیر محفوظ سفر کرکے کوئی بھی خوشی سے اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالتا۔ متبادل آپشنز نہ ہونے کی وجہ سے حادثے کا شکار ڈولی وہاں کے مکینوں کا ذریعہ آمدن بھی بنتی ہے اور مجبوری بھی۔ لوگوں کے پاس یہ سفر جاری رکھنے کے علاوہ آپشن ہی کیا ہے؟ کیا وہ پہاڑوں کو سر کرکے، کھائیوں میں اُترکر آر اور پار جائیں؟ سڑک جو کسی بھی جگہ کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے، اس سے تو یہاں کے لوگ محروم ہیں۔ دہائیاں گزر جاتی ہیں لیکن چند کلومیٹر کی سڑکیں تعمیر ہونا بھی ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ’ڈولی‘کی بوسیدہ رسیوں کی طرح ہمارا نظام حکومت بھی بوسیدہ ہے جس کی کمزوریاں وقتا فوقتا ظاہر ہوتی ہیں۔ ’ڈولی‘ کے مالکان کو تو گرفتار کرلیا گیا لیکن ریاست اور حکومتی اداروں سے سوال کرنے کی جسارت نہیں کی گئی کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے مگر ہم بنیادی سہولیات، رابطے اور آمد و رفت کے جدید تقاضوں سے ابھی تک کیوں محروم ہیں؟ لوگوں کو ابھی تک آمدورفت کے ذرائع کیوں دستیاب نہیں ہیں؟ صرف خیبرپختونخوا نہیں بلکہ دیگر شمالی علاقہ جات میں بھی وسائل محدود ہیں۔ پل ایسے کہ چلو توپُل صراط کا گمان ہوتا ہےجبکہ موبائل سگنلز نہ ہونے کے برابر۔ چھوٹا سا حادثہ پیش آجائے تو سانسیں پھول جاتی ہیں۔

ہر حادثہ ہمارے لیے کئی سبق لے کر وارد ہوتا ہے لیکن ہم ان کو پسِ پشت ڈال کر کریڈٹ لینے کی جنگ میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اگلے حادثے کا انتظار کرنے لگتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں اگلا حادثہ بھی ابھی رونما ہونے کو ہی ہے لیکن کہاں ہو گا اس کا علم نہیں۔ اور نئے حادثے کا انتظار کرتے اپنی موج مستی میں چلے جاتے ہیں، ان کا تدارک نہیں کرتے۔ پاکستان جس کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑے ہونا تھا وہ ابھی تک ماضی کی جھلکیاں دکھاتا نظر آتا ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات جو ہمارے لیےایک پوری صنعت ہیں اور ریونیو جنریشن کا ذریعہ بن سکتے ہیں، انہیں پروان چڑھانے کے اقدامات کرتے، بنیادی انفراسٹرکچر بہتر ہوتا لیکن ہم ادھرسڑک سے لے کر واش رومز تک ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ریاستی اداروں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ادارے سوشل میڈیا پر مہم چلانے سے نہیں مہارتوں سے چلتے ہیں ،صرف کریڈٹ لینے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ اس عملی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔

بنیادی سہولیات کا فقدان مقامی افراد کے لیے مشکل تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے فروغ میں بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پختہ سڑکیں، مضبوط پل اور بہتر مواصلاتی نظام کے ذریعے پاکستان ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کی مزید گہری توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو مقامی لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی راہیں کھولنے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔ لیکن اس سب کے لیے اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا ہو گا کیونکہ مقصد صرف کہنے سے حاصل نہیں ہوتے، اس کے لیے حکمت عملی بنانی ہوتی ہے تا کہ دوبارہ ’کوتاہی‘ کو ’حادثے ‘کا نام نہ دینا پڑے، ورنہ صرف بے بسی کی کہانیاں باقی رہ جائیں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اسرائیل کا گلوبل صمود فلوٹیلا کے قیدیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہے؟ سویڈش کارکن نے پردہ فاش کردیا

ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے

امریکی شہری نے 5 لاکھ 64 ہزار 219 ڈالر کی لاٹری جیت لی، رقم سرمایہ کاری پر لگانے کا اعلان

’غزہ میں نسل کشی بند کرو‘، یورپ کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد کا احتجاج، لندن میں گرفتاریاں

قومی کرکٹ ٹیم کے اسپنر ابرار احمد رشتہ ازدواج میں منسلک

ویڈیو

نیتن یاہو نے اسلامی ممالک کے 20 نکات ٹرمپ سے کیسے تبدیل کروائے؟ نصرت جاوید کے انکشافات

کچھ نہ دو میڈل کو عزت دو، بلوچستان کے ایشیئن چیمپیئن باڈی بلڈر

اسرائیل کی حد سے بڑی جارحیت: عالمی فلوٹیلا پر بین الاقوامی پانیوں میں حملہ

کالم / تجزیہ

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے

پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی