22 جولائی کو صبح سوا سات بجے اپنی گاڑی میں ہم گلگت کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے ۔ ابھی چند سال پہلے تک قراقرم ہائی وے پر جاتے ہوئے حویلیاں اور ایبٹ آباد جیسے پہاڑی اور شہری علاقوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ یقیناً وہاں رش ہوتا تھا۔ اب موٹر وے بننے سے سفر کم اور آرام دہ ہو گیا ہے ۔ صاف ستھرے رستے کی وجہ سے آپ کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کر لیتے ہیں۔اگر آپ بشام کی طرف جانا چاہتے ہیں تو ہزارہ موٹر وے سے آپ سوات موٹر وے لے لیں گے۔ اب پتا نہیں ان موٹر ویز کا کریڈٹ کس کو دینا ہے۔عوام کے پیسوں سے عوامی کام کرکے کریڈٹ بھی مانگتے ہیں۔ بہرحال مثبت اور تعمیری کام کرنے کا کریڈٹ دینے میں حرج بھی کوئی نہیں کیو ں کہ اکثر صاحبِ اختیار ، اختیار کے باوجود بھی مثبت اور تعمیری کام کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے بلکہ کوئی کام کرنا بھی نہیں چاہتے۔ لہذا کسی صاحبِ اختیار یا صاحبِ اقتدار کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں بے شک موٹروے جیسے میگا پراجیکٹ میں ہمارے ٹیکسوں کے پیسے ہی لگے ہوں۔
بابو سر ٹاپ کُھلی ہو اور گلگت ، بلتستان جاتے ہوئےآپ کاغان ، ناران کی وادی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو آپ ہزارہ موٹر وے سے بالا کو ٹ کی طرف ہو جائیں گے۔گو کہ رستہ بہت اچھے مناظر کا حامل ہے مگر تنگ ، کچا پکا،اور ٹیڑھا میڑھا ہے۔ یہ رستہ عموماً پکے ڈرائیور بھی بھول جاتے ہیں۔بہرحال تیس چالیس منٹ سوات موٹر وے پر زائد سفر کرنے کےبعد بالا کوٹ کی طرف جانے والے رستے پر واپس لوٹے۔ بالا کوٹ کی طرف سفر شروع کرتے ہی دیواروں پرایک ہی طرح کی وال چاکنگ بار بار نظر سے گزرتی ہے ۔”ایگزیکٹو واش رومز” اب اتنے کلو میٹر دور رہ گئے ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسے کبھی اسلام آباد سے گلگت تک ،وزیر فیبرکس اور سینیٹر طلحہ محمود کا نام جابجا لکھا ہوا ملتا تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں دورانِ سفر یہ عمومی مسئلہ ہے کہ موٹر ویز کے علاوہ کم ہی کہیں دورانِ سفر مناسب واش روم ملتے ہیں۔ جب ایگزیکٹو واش روم آئے تو وہ واقعی ایگزیکٹو تھے۔ ساتھ ہی ایک بہت عمدہ اور چھوٹا ریسٹورنٹ تھا۔ مالکان کا پوچھا کہ کون اتنے سلیقہ مند لوگ ہیں؟
اس سلیقہ مندی کے پیچھے بھی فوج ہی نکلی۔ایک ریٹائرڈ کرنل تھے جب کہ دوسرے پارٹنر کا تعلق وسطی پنجاب سے تھا وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایبٹ آباد شفٹ ہو چکے تھے۔یہ ایک کامیاب کاروباری حکمتِ عملی تھی ۔ ریسٹورنٹ کا انتظام چلانے والے میاں بیوی لمبا عرصہ کراچی میں رہ چکے تھے۔ ریسٹو رنٹ کی صفائی سُتھرائی ، کھانے اور پیش کش سب کچھ معیاری تھا۔چائے او ر ہلکے پُھلکے ناشتے سے 11 بجے کے قریب فارغ ہوئے تو سر سبز وادی سے گزر کر ناران شہر جا پہنچے جہاں دوپہر کا کھانا معروف مون ریسٹورینٹ پر کھایا ۔ سرِ شام بابو سر تھوڑی دیر رُکنے کے بعد گلگت کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہلکی بارش بابو سر ٹاپ پر ہی شروع ہو چکی تھی۔ چلاس کی طرف اُترتے ہوئی ڈھلوانی اور بل کھاتی اکہری سڑک پر بارش ہو رہی ہوتو گاڑی چلانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں رہنے اور پہاڑوں میں سفر کرنے کے لیے ان جیسا حوصلہ اور برداشت درکار ہوتی ہے۔ ہم میدانی علاقوں سے جانے والوں کا ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ ہم سیدھی سڑکوں پر گاڑی چلانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ پہاڑی سڑکوں پر چلتی ہوئی گاڑی ہمیں رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لہذا پہاڑی علاقوں میں اپنی بے صبری کی وجہ سے ایکسیڈنٹ کروا بیٹھتے ہیں۔
گاڑی اور دیگر سفری لوازمات کی طرف غیر سنجیدہ رویہ بھی حادثات کا باعث بن جاتا ہے۔ مکینیکلی ان فٹ اور پرانے ٹائروں والی گاڑی پر ویسے ہی لمبے سفر پر نہیں جانا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر پہاڑی علا قوں کی طرف سیر پر جانے سے از حد احتیاط کرنی چاہیے۔ ہائی ویز پر ایک بہت کام کا جملہ لکھا ہوتا ہے۔ “کبھی نہ پہنچنے سے،دیر سے پہنچنا بہتر ہے”۔
برے وقت اور حادثے کا کوئی پتا نہیں ہوتا مگر احتیاتی تدابیر پھر بھی حادثات سے بچنے میں مدد دیتی ہیں۔ بابو سر ٹاپ سے چلاس کی طرف طرف اسی اترائی پرانہی دنوں ایک حادثہ ہوا جس میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔
بہرحال رات ساڑھے گیارہ بجے ہم لوگ گلگت پہنچ گئے۔ 2018 ستمبر میں جب فیملی کے ساتھ گیا تھا تو تب بھی تقریباً اتنے ہی وقت میں گلگت سے اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ پروفیشنل ڈرائیور جو اس روٹ پر چلتے ہیں ان کے لیے تو ایک دن میں یہ سفر طے کرنا تو روز کا کام ہے ہاں البتہ لینڈ سلائیڈنگ ہو جائے اور بات ہے ۔ کہاں وہ 2017 کو تین دنوں میں اسلام آباد سے گلگت کا سفر طے کیا تھا۔
اگلے دن کچھ آرام کیا کچھ کام کیا، البتہ ریڈیو پاکستان گلگت کے معالات کا جائزہ لیا ۔ کچھ شوٹنگ کی، انٹرویوز کئے۔گلگت او ر چترال دونوں شہروں میں زمین بہت مہنگی ہے۔ کیوں کہ دونوں شہر پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اتفاق سے دونوں شہروں میں ریڈیو پاکستان کے اسٹیشنز شہر کے وسط اور مہنگے علاقوں میں ہیں۔گلگت کا اسٹیشن کینٹ میں واقع ہے۔کینٹ سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ راول پنڈی اور لاہور جیسا کینٹ ہوگا۔ بس سمجھ لیں کی یہ کینٹ کا علاقہ ہے اور قیمتی ہے۔ پاکستانی فوج سے آپ کو لاکھ اختلاف ہو مگر یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان کے بہت سے دور دراز علاقوں میں بہت سے ترقیاتی کام فوج نے کیے ہیں خواہ وہ دفاعی نقطہ نظر سے ہی کیےگئے ہوں یا کسی اور مقصد سے۔ قراقرم ہائی وے اس کی بہت بڑی مثال ہے اور اس کی قدر گلگت بلتستان کے باسی ہی جانتے ہیں ۔
سی پیک منصوبے کے تحت بننے والی سڑکیں بھی معیار کے اعتبار سے بہت عمدہ ہیں۔ ایف ڈبلیو او کی بنائی ہوئی گلگت سکردو روڈ بھی بہت اچھی ہے ۔ اگر لینڈ سلائیڈنگ نہ ہو تو یہ سفر ڈھائی تین گھنٹے کا ہے۔ 2019 میں ہم نے سفر تقریباً آٹھ گھنٹوں میں طے کیا تھا۔ ایک اعتراض کچھ مقامی لوگوں کو کرتے سنا کہ یہ سڑک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی کئی روز بند رہتی ہے۔ جہاں سُرنگیں بنانے کی ضرورت تھی وہاں بنائی جاتیں تو یہ رستہ کم سے کم بند ہوتا۔ ابھی ہم نے سکردو کے سفر کا تذکرہ نہیں کیا مگر گلگت سکردو روڈ کا ذکر شروع ہو گیا۔
سکردو کے سفر کا تذکرہ توہوگا لیکن ابھی تو آپ کو نلتر ، استور، چلم،برزل ٹاپ ، منی مرگ، دیو سائی سے سکردو لے کے جانا ہے۔