’پاکستان کے دونوں بازوؤں کو انگریزی، پی آئی اے اور میں نے جوڑ رکھا ہے‘۔ ( حسین شہید سہروردی)
سہروردی اور مشرقی پاکستان تو نکل گئے، پی آئی اے بھی جا رہی ہے۔ اس کا یقین یہ خبر پڑھ کے ہو گیا کہ ہوا بازی کی وزارت نے نگراں حکومت سے 23 ارب روپے کی ہنگامی امداد طلب کر لی ہے تاکہ اگلے 8 ماہ میں اس ادارے کی مکمل نجکاری کا عمل مکمل ہونے تک سانس بحال رہ سکے۔
پی آئی اے کے 31 آپریشنل جہازوں میں سے 11 پچھلے ماہ گراؤنڈ ہو گئ جبکہ فضائی بیڑے میں شامل 13 لیز شدہ جہازوں میں سے بھی 5 گراؤنڈ ہو چکے ہیں اور 4 مزید گراؤنڈ ہونے والے ہیں کیونکہ فاضل پرزوں کی خریداری تک کے لیے پیسے نہیں۔ بوئنگ اور ایر بس نے 15 ستمبر کے بعد سے پرزوں کی ترسیل مکمل طور پر روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پی آئی اے ایندھن فراہم کرنے والی پاکستان اسٹیٹ آئل کی بھی مقروض ہے۔ اندرونِ ملک سول ایوی ایشن کو ایئرپورٹ سروسز استعمال کرنے کے عوض 70 کروڑ روپے دینے ہیں جبکہ بیرونِ ملک مختلف ایرپورٹس کے لینڈنگ چارجز کی عدم ادائیگی کے سبب طیاروں کی عارضی ضبطی کی اطلاعات آنا ایک معمول ہے۔ آخری خبر کوالالمپور ایئرپورٹ سے آئی تھی۔ ایف بی آر نے بھی پی آئی اے کا اکاؤنٹ آبزرویشن پر رکھا ہوا ہے کیونکہ ایک اعشاریہ 3 ارب روپے کا ٹیکس بھی واجب الادا ہے۔
دسمبر تک پی آئی اے کا خسارہ بڑھ کے 900 ارب روپے تک ہو جائے گا۔ سالانہ خسارہ 60 سے 70 ارب روپے کے درمیان ہے جو آخری کسر رہ گئی تھی وہ سنہ 2021 میں عمرانی حکومت کے وزیرِ ہوابازی غلام سرور اعوان کے اس بیان نے پوری کر دی کہ پی آئی اے کے نصف سے زائد پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔
سول ایوی ایشن کو ایک ایک پائلٹ کا لائسنس چیک کر کے وزیرِ موصوف کو غلط ثابت کرنا پڑا۔ مگر اصل نقصان یہ ہوا کہ پی آئی اے کے طیاروں کے مغربی ممالک میں اترنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس سے قبل پی آئی اے ہیلتھ اینڈ سیفٹی کی بنیاد پر یورپی یونین کے لیے پروازوں کی معطلی کی سزا بھگت چکی تھی۔
البتہ کام تو وزیرِ ہوابازی کی نادانی سے بہت پہلے اتر چکا تھا۔ اس کمپنی میں حکومت کے شئیرز 92 فیصد ہیں۔ سنہ 1990 کی دہائی سے بالخصوص حکومتوں نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو روزگار دینے کے لیے ریلوے، اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں کو پارکنگ لاٹ میں تبدیل کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب سرکار کسی ادارے کے سیاہ و سفید کی مالک ہوتی ہے تو وہ ادارہ سفید ہاتھی میں بدل جاتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی حد تک یہ سچ ہو۔ اگر واقعی یہ تاثر ایک ابدی حقیقت ہوتا تو پھر سنہ 1946 میں 2 طیاروں سے شروع ہونے والی ایتھوپین ایئرلائنز کو بہت پہلے ہی ڈوب جانا چاہیے تھا۔ روزِ اول سے اس ایرلائنز میں سرکاری شئیرز 92 فیصد تھے۔
سنہ 1974 میں شاہ ہیل سلاسی کا ایک مارکسسٹ فوجی انقلاب میں تختہ الٹ دیا گیا۔ تمام معیشت کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا سوائے ایتھوپین ایرلائنز کے۔ بلکہ مارکسسٹ حکومت نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مکمل اختیار دیا کہ وہ بالائی عہدوں پر میرٹ کے تقاضوں کے مطابق موزوں اور اہل افراد کا تقرر کریں بھلے بیرونِ ملک سے کنٹریکٹ پر ہی ماہرین کیوں نہ بلانے پڑیں کیونکہ ایتھوپیا کا وقار بیرونی دنیا میں برقرار رکھنے کے لیے اس ایئرلائن کی خودمختاری برقرار رہنا ازبس ضروری ہے۔
آج 77 برس بعد ایتھوپین ایئرلائنز افریقہ کی سب سے بڑی اور اپنے فضائی آپریشنز کے سبب 10 بڑی عالمی فضائی کمپنیوں میں شامل ہے جو دنیا بھر 120 مقامات تک مسافر اور کارگو لاتی لے جاتی ہے اور 5 دیگر افریقی فضائی کمپنیوں کو تکنیکی و تربیتی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔
نجکاری کے دور میں بھی اس ایئرلائن میں حکومت کے 92 فیصد شئیرز برقرار ہیں اور کسی برس منافع میں نہیں جاتی تو بھی اپنا ضروری آپریشنل اور انتظامی خرچ اپنے وسائل سے پورا کر لیتی ہے۔
تو پیارے دوستو مسئلہ نیک نیتی اور میرٹ کا ہے۔ دونوں غائب ہو جائیں تو سرکاری چھوڑ نجی کاروبار بھی ڈوبنے میں آج کل کے گلا کاٹ زمانے میں لمحہ نہیں لگتا اور دنیا اس قدر تیز رفتار اور بے مروت ہے کہ مرنے والے ادارے کا پرسہ دینے کی بھی کسی کو فرصت نہیں۔
نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں کسی نے تجویز دی کہ چونکہ یہ ہاتھی دیسی نوکرشاہوں سے سنبھالا نہیں جا رہا لہذا کوئی گورا پروفیشنل لایا جائے۔ چنانچہ خطیر مراعاتی پیکیج پر ایک جرمن کارپوریٹ صاحب برنارڈ ہلڈن کو امپورٹ کیا گیا۔ ان کے آنے سے ادارے کو کتنا سہارا ملا ؟ یہ تو ہم نہیں جانتے البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان کے ہوتے 2017 میں پی آئی اے کی ایک ایئربس ایک برٹش فلم کمپنی نے 2 لاکھ ڈالر کے عوض چارٹر کی۔ جب شوٹنگ ختم ہوئی تو ایئر بس پاکستان واپس آنے کے بجائے مالٹا سے اڑ کے جرمن شہر لائپزگ کے ایئرپورٹ پر اتر گئی جہاں اسے ایوی ایشن میوزیم کو 14 لاکھ ڈالر میں فروخت کر دیا گیا۔ اس کے بعد برنارڈ بھائی استعفیٰ دے کر چمپت ہو گئے اور مقدمہ ایف آئی اے اور نیب کے پاس چلا گیا۔
ایئرمارشل ارشد ملک سنہ 2019 تا 2022 پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو رہے جبکہ ایئرفورس میں بھی ان کی افسری برقرار رہی۔
پی آئی اے کی اگر نج کاری کرنی ہی تھی تو اب سے10 برس پہلے تک اس کے عوض 4 پیسے ہاتھ آ سکتے تھے ۔ایک ایسے وقت جب اس کا مالی بوجھ اثاثوں کی مالیت سے بھی 5 گنا ہو گیا ہے اسے کون خریدے گا ؟ ممکن ہے کہ کوئی اندر کا آدمی ہی کوئی فرنٹ کمپنی بنا کے مفت کے بھاؤ خریدنے کی کوشش کرے اور پھر اس کا بیڑہ بطور اسکریپ شیرشاہ کی کباڑ مارکیٹ میں بک کے نئے مالک کو 4 پیسے دے جائے۔
پی آئی اے ہمارے بچپن کا مان تھی۔ پاکستان کا وزیٹنگ کارڈ تھی۔ وفاق کی زنجیر تھی۔ ایک سورہ فاتحہ مرحومہ کے ایصالِ ثواب کے لیے۔