نائجیرین نژاد برطانوی مصنفہ جو اپنی ہی لکھی کہانیاں پڑھ کے ڈر جاتی ہیں

جمعہ 15 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نائجیرین نژاد برطانوی مصنفہ نوزو اونوہ اپنے کام اور تحریر کی وجہ سے مشہور ہیں، ان کی کتابوں میں اصل موضوع ایک ہی ہے اور وہ ہے افریقہ میں جادو ٹونے کا رواج، جو افریقہ کی ہر نسل میں پایا جاتا ہے۔

 نوزو اونوہ کے مطابق ’افریقن ہَارَر‘ایک ایسا موضوع ہے جسے لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوزو اونوہ خود اس افریقی ثقافت سے ڈرتی ہیں، خاص طور پہ جادو ٹونے اور بھوتوں کی کہانیوں سے۔

نوزو اونوہ کہتی ہیں کہ یہ سب چیزیں وہ بچپن سے دیکھ اور سن رہی ہیں، کیونکہ یہ سب ان کے بڑوں کی ثقافت کا حصہ ہے اور افریقہ میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کا بہت بڑا حصہ ہے۔

نوزو اونوہ کو اپنی کہانیوں کی وجہ سے برام اسٹوکر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ مل چکا ہے، جو اس سے پہلے، اسٹیفن کنگ اور کرسٹوفر لی جیسی نامی گرامی شخصیات کو بھی مل چکا ہے۔

نوزو کو یہ انعام ان کی کتابوں کی مقبولیت کی وجہ سے ملا جو ایک ہی وقت میں افریقی ثقافت کا اچھا اور خوفناک چہرہ دِکھاتی ہیں۔ پڑھنے والے اسی وجہ سے ان کی کہانیوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔

نوزو اونوہ افریقہ کی ایگبو کمیونٹی کی رہنے والی ہیں اور ان کی حالیہ کتاب ’اے ڈانس فار دا ڈیڈ‘ بھی لگبو کمیونٹی کے ایک لڑکے کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں یوکاری نامی ریاست کے بادشاہ کے بیٹے اور تخت کے وارث ’ڈائک‘ ایک مندر میں کسی دیوتا کی عبادت کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے گاؤں والے اپنانے سے انکار کردیتے ہیں، ایسے لوگوں کو اگبو رواج میں ’اوسوس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

نوزو اونوہ کہتی ہیں کہ جب آپ یہاں برطانیہ میں نسل پرستی، طبقاتی تعصب کے بارے میں سوچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر معاشرے میں آؤٹ کاسٹ( جن کو کو معاشرہ تسلیم نہ کرے) لوگ موجود ہوتے ہیں‘۔

ایگبو کمیونٹی کی ثقافت کے مطابق اگر کوئی مندر میں جا کے کسی بت کی عبادت کرتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس کمیونٹی سے الگ ہوجائے گا، یہ افریقی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ نوزو اونوہ کی کتاب ’اے ڈانس فار دا ڈیڈ‘ میں بھی اس عقیدے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

نائجیریا میں 1956 میں ایک بل پاس ہوا تھا جس کے تحت افریقی کمیونٹی میں آپ کسی کو ’اسوس‘ کہہ کر معاشرے سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ لیکن افریقہ کے بعض علاقوں میں آج بھی ایسا ہوتا ہے۔

نوزو نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ان کا خاندان بھی اس عقیدے کو مانتا ہے، وہ اپنی کتابوں میں منفرد انداز سے اس فرسودہ روایت پر روشنی ڈالتی ہیں۔

بعض قارئین نے ان کے کام کو ’شیطانی عمل‘ کا بھی نام دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ بڑی ہو رہی تھی تو اس عقیدے میں صرف مردانہ بتوں کی عبادت کی جاتی تھی، اپنی کتابوں میں نوزو نے وہاں کے لوگوں کو عورت کا کردار دیا جو کتابوں کی مقبولیت کی وجہ بنی۔

نوزو اونو کا کہنا ہے کہ اب ان کو اپنے کام سے عجب لگاؤ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے کام کے ذریعے لوگوں کو بتانا چاہتی ہیں کہ یہ عقیدہ آخر ہے کیا؟

ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈراؤنے افسانے پڑھنے اور لکھنے پر مزید کام کرنا چاہتی ہیں۔ چاہے وہ جادو ٹونا ہو یا پھر افریقی کمیونٹی کا عقیدہ، وہ صحیح بات لوگوں تک دلچسپ انداز میں پہنچانا چاہتی ہیں۔

نوزو اونوہ نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف وارک سے لکھاری کی ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہے، لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ کورس میں سیکھی گئی مہارت کو زیادہ استعمال نہیں کرتیں کیونکہ کورس میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلط گائیڈ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر نہیں لکھتی، افسانوی کردار ان کے ذہن میں خود ہی آتے ہیں، جو انہیں ڈکٹیٹ بھی کرتے ہیں، وہ صرف لکھتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp