ہر انسان اپنے اندر ایک کہانی ہوتا ہے۔اگر کسی نے زندگی منفرد ڈھنگ سے بتائی ہو یا زندگی نے اپنے ڈھب سے فرد سے سلوک کیا ہو، ہر دو صورتوں میں کہانیاں تو جنم لیتی ہیں۔ صحافی ، سیاست دان، ماہرین قانون ،بیور کریٹ ،فوجی افسران اور بڑے بزنس مینوں کے پاس زندگی کے بہت سے تجربات اور کہانیاں ہوتی ہیں ۔
عام بندہ بھی کہانی بُننے کے فن کا ماہر ہو تو کام چلا ہی لیتا ہے، مگر وہ لوگ جنھوں نے کئی محاذوں پر زندگی گزاری ہو اور ان کے پاس کہنے کو ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ سیکھ سکتے ہیں۔ شکیل درانی پاکستان کے ایک ایسےخوش قسمت اور قابل سپوت ہیں جنھوں نے اپنی زندگی ایک مثالی فرد کے طور پر گزاری ہے۔
سن 1971 میں انھوں نے سول سروسز کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اور دورانِ سروس بہترین عہدوں پر اپنی خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات پر مبنی کتاب “فرنٹیئرسٹیشنز”انگریزی زبان میں لکھی ۔ اس کتاب کے دو ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس شائع کر چکا ہے۔ اب اس کتاب کا اردو ترجمہ محمد صدیق پراچہ نے کیا ہے۔ پراچہ صاحب میرے دوست ہیں مگر میرے افسر بھی رہے ہیں۔ وہ خود مطالعہ کے رسیا اور صاحب الرائے ہیں، ان کی محبت ہے کہ انھوں نے مجھےاس قابل سمجھا کہ ان کی ترجمہ کی ہوئی کتاب پر کچھ لکھوں۔
ترجمہ دراصل ایک تخلیقی عمل ہے۔ ترجمہ کرنے والا صاحبِ مطالعہ اور ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہو تو اس کا ترجمہ بھی اصل متن کے قریب تر ہو جاتا ہے۔ میرے لئے بہت آسان تھا کہ میں خال خال کتاب کی ورق گردانی کرتا اور دو چار صفحات گھسیٹ دیتا، مگر میں یہ بد دیا نتی گردانتا ہوں کہ بغیر جانے پرکھے آپ کسی چیز کے بارے میں رائے دے دیں۔
شکیل درانی کی کتاب کم و بیش ساڑھے چار سو صفحات پر مبنی ہے۔ درانی صاحب کے تجربات و مشاہدات بہت متنوع ہیں ۔اندازِ بیان بہت دل چسپ اور پُر لطف ہے۔ محمد صدیق پراچہ کا ترجمہ بھی رواں ،زبان و بیان کے اعتبار سے معیاری ہے ۔ پتا چلتا ہے کہ انھوں نے’’ فرنٹیئر سٹیشنز ‘‘کو دل سے اردو کے قالب میں ڈالا ہے۔کتاب اتنی دل چسپ اور ترجمہ اتنا ،رواں ہے کہ پوری کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔
شکیل درانی نے اپنی سروس کے دوران اسسٹنٹ کمشنر سے چیف سیکرٹری اور پھر چئیرمین ریلوے سے چئیر مین واپڈا تک کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے۔ قبائلی علاقہ جات اور ایجنسیاں اب صوبہ خیبر پختون خواہ کے اضلاع کی صورت اختیار کر چُکے ہیں، وہاں شکیل درانی نے بطور پولیٹیکل ایجنٹ کے بھی کام کیا ہے۔ بعد ازاں وہ ڈپٹی کمشنر چترال، چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی رہے ہیں ۔
قبائلی اور شمالی علاقہ جات کے حوالے سے درانی صاحب کی حیثیت ایک اتھارٹی کی سی ہے۔ اگر کوئی شخص قبائلی علاقہ جات کے مزاج،سماج ،سبھا کو سمجھنا چاہتا ہے تو ” فرنٹیئر سٹیشنز ” اس کے لئے بہترین کتاب ہے۔یہ کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ابھی کچھ دردِ دل رکھنے والے افراد سرکار میں موجود ہیں۔ یہ سرکاری اہلکار ملک سے جذباتی حد تک پیار کرتے ہوئے عوام کی طرف کھڑے ہوتے ہیں نہ کہ محض اپنے مرتبے اور کرسی سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔
جس ایمان داری اور خلوص سے انھوں نے کتاب میں اپنے تجربات و مشاہدات اور تاثرات بیان کئے ہیں بلا مبالغہ یہ کتاب اس قابل ہے اسے پاکستان کی بیورو کریسی کے تربیتی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اُنہوں نے اپنی اس کتاب میں بھارتی جنرل مانک شااور جنرل یحیٰ خان کی دوستی ، جرمنی سے تعلق رکھنے والی اور پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد میں اپنی زندگی بسر کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاو، مولانا عبدالستار ایدھی اورلیڈی ڈیانا جیسی عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر بہت دلچسپ انداز میں کیا ہے۔
اُنہیں اپنے والد کرنل شفیع درانی کی ملازمت کی وجہ سے انھیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنےکا اتفاق ہوا اس لئے تعصب اور نام نہاد تفاخر ان میں نام کوبھی نہیں۔ سچی بات ہے کتاب کے آغاز میں جب ایک بشارت کا بیان ہوا تو مجھے لگا کہ یہ کوئی روایتی بیوروکریٹ ہے جو بس “میں میں ” کی گردان کرے گا۔لیکن کتاب پڑھ کر احساس ہوا کہ نہ تو شکیل درانی روائتی بیورو کریٹ ہیں اور نہ اُن کا طرزِ نگارش عامیانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ”پاکستان میں سرکاری ملازمت دھوکہ اور فریب کے گڑھوں سے پُر راستہ ہے”۔ سیاست، سماج ، افسر شاہی، فوج ،عدلیہ ، ہر طبقے کے حوالے سے انھوں نے کُھل کر اور بنا کسی تعصب کے اپنے تجربات بیان کئے ہیں اور اپنی آراء دی ہیں۔ وہ کُھل کر کا لا باغ ڈیم بنانے کے حق میں ہیں۔ سندھ کو انتطامی طور پر سب سےکم قواعد و ضوابط پر عمل کرنے والا صوبہ قرار دیتے ہیں ۔
بھٹو صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔”ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست کی موثر عمل داری کا دائرہ کار قبائلی علاقوں اور بلو چستان تک بڑھانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے تا کہ معاشی اور سماجی ترقی کا آغاز کیا جا سکے ۔باقی کسی حکمران نے قبائلی علاقوں کا دورہ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔” پانی کے بے جا استعمال کے خلاف ہیں او رسمجھتے ہیں کہ پانی قیمتاً دستیاب ہونا چاہیے تا کہ اس کا بے جا مصرف روکا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے”پنجاب کے علاوہ کہیں بھی زمین دار پانچ سو سالانہ آبیانہ ادا نہیں کرتے “فوج کے حوالے سے “حقائق” بہت لطیف پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔
“زیادہ تر پاکستانی جرنیلوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں غیر فوجی کامیابیوں کی بنا پر یاد رکھا جائے۔بہبودی منصوبے انہیں بہت اچھے لگتے ہیں۔ جنھیں شاید یہ میدانِ جنگ میں فتوحات کے اعزازی تختہ پر اپنا نام نہ لکھوا سکنے کا ایک عذر سمجھتے ہیں ۔ 1969 میں لیفٹیننٹ جنرل فضلِ حق کی کہی ہوئی بات یاد آجاتی ہے۔(سرکاری ملازمت کو بھول جاؤ اور فوج میں شامل ہو جاؤ ۔ پاکستان میں ہمیشہ فوج حکومت کرے گی)”کتاب میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جنھیں بطور اقتباس پیش کیا جا سکتا ہے ۔ جیسے”اشرافیہ خوش حالی کے زوال پذیر جزیروں میں اور حکمران مانگے تانگے کے وقت پر رہ رہے ہیں ” مگر آپ ” فرنٹیئر اسٹیشنز ” کا مزہ پوری طرح کتاب پڑھ کر ہی اُٹھا سکتے ہیں۔
محمدصدیق پراچہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے شکیل درانی کی کتاب کا ترجمہ نہایت چابک دستی اور مہارت سے کیا ہے ۔ “فکشن ہاؤس ” بھی داد کا مستحق ہے جو ایک انتہائی اہم کتاب کی رسائی پاکستان کے عام آدمی تک ممکن بنا رہا ہے۔