گزشتہ چند دنوں میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے بارے میں اس قدر زیادہ لکھا جا چکا ہے کہ مزید نہ لکھا جائے تو اچھا ہوگا۔ سچی بات ہے کہ جو کچھ لکھا جاچکا ہے، اسے دیکھ کر، پڑھ کر ابکائیاں آتی ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ ایسے ہوتے ہیں جج؟
کسی نے لکھا کہ ان کے 19 مہینوں میں عدلیہ اس قدر زیادہ تقسیم ہوئی کہ پاکستانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کسی نے لکھا کہ چیف جسٹس نے ایک سیاست دان اور اس کی سیاسی جماعت کے بارے میں اس قدر عقیدت بھرا رویہ اختیار کیا کہ تاریخ کوئی دوسری نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ قبلہ بندیال صاحب مخصوص ججز کے ذریعے سیاسی انجینئرنگ کی کوشش کرتے رہے۔ یہ دوسروں ہی کی بیان کردہ باتیں نہیں ہیں، خود ان کے ساتھی ججز بھی اپنی زبان اور بدن بولی سے یہ سب کہانیاں سناتے رہے۔
خیر! جسٹس بندیال اور ٓان کے دور پر مزید لکھنے کے بجائے ایک قصہ ہی بیان کرتا ہوں۔
امسال عیدالاضحیٰ سے ایک روز پہلے جناب چیف جسٹس چند یوٹیوبرز کو لے کر بیٹھ گئے۔ یہ وہی یوٹیوبرز تھے جو جناب عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ میں شب و روز گزارتے تھے اور انقلابی میڈیا سیل کا حصہ بن کر نوٹ کماتے تھے۔ قاضی القضاہ نے انہی یو ٹیوبرز کے سامنے اپنا سینہ کھول کے رکھ دیا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا’ دیکھیں! 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، انہیں تنہا کیا جا رہا ہے۔ فوجیوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ عمران خان کس قدر دلیر اور بہادر ہے، یہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ فوج اپنی کوششوں میں ناکام ہوگی‘۔
اس ملاقات کا احوال بیان کرنے والے نے بتایا کہ جب جسٹس بندیال عمران خان سے متعلق اپنے ان جذبات کا اظہار فرما رہے تھے تو ان کا چہرہ فرط عقیدت سے تمتما رہا تھا۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں تسلیم کیا کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں اپنے ہم خیال ججز کا ایک گروہ بنا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے دھڑے کے 8 ارکان کے نام بھی لیے اور دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ میں صرف ان کا دھڑا کام کرتا ہے، باقی جو 7 ججز ہیں، وہ سیاست کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دھڑے کی تعریف کرتے ہوئے جن ججز کے نام لیے، ان میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اورجسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
آپ نے دوسرے دھڑے یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، اور جسٹس امین الدین خان کے بارے میں فرمایا’ ہم کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ جج ہمیں کام نہیں کرنے دے رہے اور تنگ کر رہے ہیں‘۔
پھر وہ اچانک اس وقت کی حکومت پر برسنے لگے اور فرمایا کہ آئندہ دنوں میں انہوں نے کچھ فیصلے لکھے ہوئے ہیں جو حکومت کو ’ٹھیک‘ کر دیں گے۔ واضح رہے کہ یوٹیوبرز سے یہ ملاقات جولائی کے اوائل میں ہوئی۔ اس سے پہلے یا اس کے بعد وہ حکومت کو ’ٹھیک‘ کرنے میں کس قدر کامیاب ہوئے، حساب کتاب آپ خود ہی کرلیجیے۔
جسٹس بندیال نے اس نشست میں تین، چار صحافیوں کے بارے میں بھی گفتگو فرمائی۔ واضح رہے کہ اپنے دور میں بڑے جج صاحب نے صرف ججز کے دھڑے ہی نہیں بنائے بلکہ صحافیوں کے مقابلے میں یوٹیوبرز کا ایک دھڑا بھی کھڑا کیا، انہیں صحافی قرار دیا اور شاندار پروٹوکول سے نوازا۔ چند روز قبل جسٹس بندیال اور معروف رپورٹرعبدالقیوم صدیقی کے درمیان ہونے والی جھڑپ اور اس میں ہونے والا مکالمہ اس دھڑے بندی کی واضح تصدیق کرتا ہے۔ صحافی نے جسٹس بندیال کو واضح طور پر کہا’ آپ کا دھڑا ہے تو پھر میں بھی دھڑے والا آدمی ہوں‘۔
یوٹیوبرز سے ملاقات میں جسٹس بندیال نے کہا’ میں بیان نہیں کر سکتا کہ ہم پر فوج کا کتنا دباؤ ہے، کئی ججوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے‘۔ انہوں نے بعض ججز کے نام بھی لیے کہ وہ دباؤ کی شکایت لے کر ان کے پاس آئے تھے۔ انہوں نے ججز کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کی۔
یوٹیوبرز کے سامنے جسٹس بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تذکرہ بھی برے الفاظ میں کیا۔ کہا کہ انہوں نے بہت تنگ کر رکھا ہے۔ پھر’مخالف گروپ‘ کے جسٹس منصور علی شاہ کو ’بہت بڑا منافق‘ قرار دیا کہ وہ دکھاوے کے لیے ججز کے متحد ہونے کی بات کرتے تھے، اصلاً قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ تھے۔
ممکن ہے کہ جج صاحب اس ملاقات کی تردید کریں تاہم انہوں نے اپنے 19ماہ کے دور میں اپنے سیاسی ہونے کا بار بار قولی اور عملی طور پر اظہار فرمایا۔ ان کی ساری پھرتیاں، ساری سماعتیں اور سارے ریمارکس صرف ایک شخص کی عقیدت میں بھیگے ہوتے تھے۔ یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ جج صاحب دراصل ایک مثالی سیاسی کارکن تھے۔ دل چاہتا ہے کہ اس پرجوش انقلابی کارکن کی ساری باتیں اور ساری حرکتیں یہاں لکھوں لیکن پھر بات بڑھ جائے گی اور ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے گی۔
گزشتہ روز جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا سورج ڈوب رہا تھا، وہ سپریم کورٹ کے عملے سے ملاقات میں اپنے آپ کو ڈوبتے سورج سے تشبیہہ دے رہے تھے، ٹی وی چینلز پر ان کے آخری ’اقول زریں‘ دکھائے جا رہے تھے، میں سوچ رہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے گزشتہ چند چیف جسٹس صاحبان بالخصوص میاں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور عمرعطا بندیال عدلیہ میں نوکری کرنے کے بجائے کمائی کا کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرلیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ممکن ہے کہ زیادہ کامیاب اور معزز بنتے۔ اب کوئی ہے جو ان کا ذکر خیر کرے؟
مذکورہ بالا تینوں چیف جسٹس صاحبان کو جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے دفترعمل میں آخر ایسا کیا ہے جس پر وہ اِترا سکیں؟ جس ایک شخص، ایک پارٹی کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ایوان اقتدار میں لائے تھے، وہ اٹک جیل میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔ جسٹس بندیال نے اس شخص کے لیے کیا کچھ نہ کیا لیکن نتیجہ آخر کیا نکلا؟