لندن میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے نوازشریف وطن واپسی کے لیے 21 اکتوبر کی تاریخ دیتے ہی سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کے روایتی بیانیے کی ڈگر پر چل نکلے۔ جس کے بعد پارٹی میں خاموشی چھا گئی۔ اگلے روز مریم نواز نے مقتدر حلقوں کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ ‘نواز شریف انتقامی سیاسیت پر یقین نہیں رکھتے’۔ مگر سپریم کورٹ کے نیب آرڈیننس میں ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے اور نیب کی جانب سے تمام میگا کرپشن کیس کھولنے کے اعلان سے سیاسی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم سیاسی جماعتیں پر اعتماد ہیں کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس نظرثانی میں کالعدم قرار دی گئیں ترامیم بحال کردیں گے۔
پچھلے چند سالوں میں مسلم لیگ نواز نے اپنے قائد نوازشریف کو ملک سے باہر بھجنے سمیت مختلف رعائتیں لینے کی خاطر اپنے جارحانہ بیانیے کو ترک کیے رکھا۔ حال ہی میں رانا ثناءاللہ نے آشکار کیا کہ ایک منصوبے کے تحت عمران خان سے ‘نجات’ حاصل کرنے کے لیے ان کی جماعت نے جنرل قمر باجوہ کو توسیع دینے میں حصہ ڈالا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے خلاف تمام کیسسز بھی ختم کروانے اور اپنے حریف عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو جیلوں میں بھی ڈلوایا تاکہ ن لیگ کا ‘لیول پلیئنگ فیلڈ’ کا مطالبہ بھی پورا ہوسکے۔
اس کے بعد پھر پی ڈی ایم حکومت میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھال کر ملکی تاریخ کے سخت ترین فیصلے کرکے سارا ملبہ اپنے ذمہ لیا۔ اب پھر خبریں ہیں کہ اگلی حکومت ملنے کے اشاروں کے بعد نوازشریف کو واپس لایا جا رہا ہے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے۔
90 کی دہائی میں اقتدار میں آنے سے پہلے نوازشریف نے اپنے رفقاء کو بتایا کہ ’اس مرتبہ میری حکومت آئی تو حکومت میں کروں گا یا وہ‘۔ پھر کیا ہوا؟ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو گھر بھیج دیا اور جنرل پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف بنا دیا۔ دوسری طرف یہ فیصلہ ہوا کہ اگر نواز شریف نے دوبارہ کسی کو گھر بھیجنے کی کوشش کی تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ دوسری کوشش میں نواز شریف کو جیل جانا پڑا اور پھر ڈیل کر کے بیرون ملک چلے گئے۔
بیرون ملک میں پھر اپنے رفقا کو بتایا کہ اول تو انہیں معلوم نہیں کہ وہ کبھی واپس پاکستان جا سکیں گے یا نہیں۔ لیکن اگر وہ واپس لوٹے تو جنرل مشرف کے خلاف کارروائی ضرور کریں گے۔ ان کے بھائی اور دوسرے رہنما سمجھاتے رہے کہ ایسا نہ کریں۔ مگر وہ باز نہ آئے۔ پھر کیا ہوا؟ دھرنے، مظاہرے، دھاندلی کے نعرے اور پھر پاناما کیس۔ اور ایک برے دن بیٹے سے تنخواہ کی معلومات اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے الزام میں نااہل اور عدالت نے قرار دیا کہ نوازشریف صادق اور امین نہیں رہے۔
نااہل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے رفقا سے پھر مشورہ کیا کہ انہیں موٹروے سے سیدھا گھر جانا چاہئے یا پھر جی ٹی روڈ پر ایک جلوس کی صورت میں عوامی حمایت حاصل کی جائے۔ بھائی شہباز شریف سمیت رفقا نے سمجھایا کہ انہیں موٹروے کے راستے واپس لاہور جانا چاہیے۔ مگر پرویز رشید سمیت چند سوشلسٹ ساتھی اسے متفق نہ ہوئے اور کہا کہ انہیں جی ٹی روڈ کا راستہ اپنانا چاہیے۔ ںواز شریف نے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا تاکہ وہ عوام کو بتا سکیں کہ ان کے منتخب کردہ وزیراعظم کو کیسے انصاف کی کرسی پر بیٹھا ایک شخص گھر بھیج دیتا ہے۔ ’ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے لاہور پہنچ گئے۔ جی ٹی روڈ کے انتخاب نے پاناما پیپرز کے ہنگامے کی وجہ سے مایوسیوں کے اندھیروں میں گھری مسلم لیگ نواز کو ایک نئی طاقت بخش دی۔
ملک بدری کے دوران انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت طے کیا جس تحت دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ نہیں دیں گی۔ اگرچہ اس معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل انہوں نے کی جب وہ میمو سکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے نکل پڑے مگر دونوں جماعتوں کی اسمبلیوں نے مدت پوری کی۔
ایک مرتبہ پھر نواز شریف ایک ڈیل کے تحت لندن میں بیٹھ کر اپنے سب سے بڑے حریف عمران خان کی حکومت گرانے اور اسے جیل بھجوا کر واپسی کی تاریخ دیتے ہی ایک نیا پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے پارٹی رہنماوں سے خطاب میں انہوں کہا کہ ان سابق جرنیلوں اور ججوں کا احتساب ہوگا جنہوں نے انہیں اقتدار سے نکال کر ملک کو معاشی بحران میں ڈبو دیا۔ انہیں معافی دینا عوام سے ناانصافی ہو گی اور وہ معافی کے حقدار نہیں۔ ان کے اس بیان نے ملکی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔ مریم نواز نے اپنے والد کے اس سخت بیان کے بعد کہا کہ ان کی جماعت بدلے کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔
شاید اپنی پاکستان آمد سے قبل بھائی جان کے انقلابی بیانیے سے پریشان لندن میں قیام کے بعد دو روز قبل ہی پاکستان پہنچنے والے شہباز شریف کو دوبارہ فلائٹ پکڑ کر لندن جانا پڑا۔ اطلاعات ہیں کہ وہ ایک اہم پیغام لے کر نواز شریف کے پاس پہنچے ہیں اور اچانک واپس لندن جانے کی ایک بڑی وجہ ان کا حالیہ بیان بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے بعد نیب کیسز کھلنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور ان کی واپسی کے امور بھی زیر بحث آئیں گے۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ مخالف تقریر نے ایک بار پھر پارٹی کے ایسے تمام رہنماؤں کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے جن کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں آئندہ حکومت سونپنے کے لیے تیار ہے اور نواز شریف کا جارحانہ بیانیہ ساری کوششوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔