چوہدری ظہور صاحب نے کبھی اپنے نام کے ساتھ چوہدری نہیں لگایا اور وہ نہ ہی اس نام سے معروف ہیں مگر قریبی دوست ان کا تذکرہ چوہدری کہہ کر ہی کرتے ہیں یا اسی نام سے پکارتے ہیں۔ظہور صاحب کا بطور وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو برادرم چوہدری ضمیر اشرف نے مجھے طلعت حسین کے پروگرام کا سکرین شارٹ بھیجا۔ طلعت حسین کا پروگرام جاری تھا اور نیچے پٹی چل رہی تھی ظہور احمد کو وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات تعینات کر دیا گیا۔ضمیر اشرف چونکہ جانتے تھے کہ میرا اور ظہور صاحب کا قریبی تعلق ہے اس لیے میں سمجھا کہ وہ خبر کی تصدیق کرنا چاہ رہے ہیں۔
30 اگست کی رات کے ساڑھے دس ہونے کو تھے۔ میں عموماً اس وقت انھیں ٹیلی فون نہیں کیا کرتا۔ کریں بھی تو اکثر دفتری اوقات کے بعد وہ اپنا فون بند ہی کر دیتے ہیں۔ مجھے ظہور صاحب کی ایک اور عادت بہت پسند ہے کہ وہ عید وغیرہ کے موقع پر کئی کئی دن فون بند رکھتے ہیں۔ واضح طور پر اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چھٹیاں بھر پور طریقے سے گھر والوں کے ساتھ ہی گزاری جائیں اور خواہ مخواہ کی ہیلو ہائے سے بچا جائے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ روایتی آدمی نہیں ہیں۔ غیر روایتی وہ کس طرح ہیں اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ پہلے سیکرٹری اطلاعات تعینات ہونے کا تذکرہ ہو جائے۔
میں چونکہ اس اطلاع پر بہت خوش ہوا اور بلا اختیار چوہدری ظہور صاحب کو کال ملا دی۔ انھوں نے فوراً فون اٹینڈ کیا اور مبارک باد دی تو کہنے لگے ‘یہ منسٹری بہت چیلنجنگ ہے، بس دعا کریں اللہ عزت رکھے’۔میں نے جواب دیا چوہدری صاحب آپ ہر کسی کو عزت دیتے ہیں ،رب آپ کو بھی عزت دے گا۔ اور جتنا مختلف نوعیت کا آپ تجربہ رکھتے ہیں یہ منسٹری بھی آپ کامیابی سے چلا جائیں گے۔
شاید ظہور صاحب پسند بھی نہ کریں اور شاید میں لکھتا بھی نہ مگر ان کی تعیناتی کے بعد پہلا کالم مظہر برلاس صاحب نے روزنامہ جنگ میں لکھ دیا جس میں ان کے گورنمنٹ کالج لاہور میں گزارے وقت اور ان کی شاعری کا تذکرہ تھا۔ ایسے کئی کالم جنرل باجوہ کے حوالے سے جی سی کے تعلق سے مظہر برلاس لکھتے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں روزنامہ نئی بات میں برادرم ابرار ندیم نے بھی ظہور صاحب اور ڈی جی ریڈیو طاہر حسن کے حوالے سے ایک ملاقات کے بعد کالم لکھا۔ مگر مجھے لگا کہ یہ دو کالم بھی ظہور صاحب کا تعارف نہیں کروا پائے۔
تعیناتی کی خبر ملتے ہی میں نے خوشی کے مارے ایک ٹویٹ اور فیس بک پوسٹ کر دی کہ میرے عزیز دوست چوہدری ظہور احمد وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات تعینات ہوئے ہیں۔ٹویٹ اور فیس بک پوسٹ کے ساتھ ان کی لگائی گئی تصویر بھی میری ہی بنائی ہوئی ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ میری ٹویٹ اور فیس بُک پوسٹ دونوں سے ابھی تک وہ آگاہ نہیں کیوں کہ ان دونوں پلیٹ فارمز پر ان کا اکاؤنٹ نہیں۔
چوہدری ظہور احمد وفاقی سیکرٹری اطلاعات تعینات. pic.twitter.com/yekCTGSnZf
— Akmal Ghumman (@AkmalGhumman) August 30, 2023
تحریر ہذا کی دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے بہت سے قریبی دوستوں نے پوچھا کہ آپ سے ظہور کا تعلق کیسے اور کب بنا؟۔ جواب میں کہتا ہوں، یہ لمبی کہانی ہے کہ تعلق کتنا طویل اور گہرا ہے۔ اس پر کبھی لکھوں گا۔ اب میں نے سوچا کہ دوستوں کے سوالات کا جواب دے ہی دوں۔ مجھے ویسے خود بھی ٹھیک سے علم نہیں کہ ہماری ملاقات کب دوستی میں ڈھل گئی۔ دوستی کبھی یک طرفہ کوشش سے نہیں ہو سکتی۔ یہ دو طرفہ ہی ہو تو دوام پاتی ہے ورنہ تعلق میں کہیں نہ کہیں ایسا موڑ آ ہی جاتا ہے کہ آپ اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔
سال 2009 میں ایک “مہربان” اسٹیشن ڈائریکٹر نے میری تبدیلی ریڈیو لاہور سے فیصل آباد کروا دی۔ شاید عمومی حالات میں ایسا ہوتا تو میں چلا جاتا لیکن جب مجھے یہ علم ہوا کہ یہ “مہربانی” کسی دیرینہ کینے اور تعصب کی مرہونِ منت ہے تو میں نے سوچا کہ حکامِ بالا تک حقیقتِ حال پہنچانا ضروری ہے۔
آج کل نگران وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی ان دنوں ڈی جی ریڈیو پاکستان تھے۔ میں ان کے بارے میں کہا کرتا ہوں انھوں نے جمہوری دور میں ریڈیو آمرانہ طریقے سے چلایا ہے۔ ان کی رسائی سیدھی ایوانِ صدر اور صدر زرداری تک تھی لہذا انھوں نے ریڈیو کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے پوری جان ماری مگر اس جان ماری میں کئی کی جان بھی گئی۔ ایک اچھے منتظم کو ادارے کی بہتری کے لئے سخت فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں۔ جو کہ سولنگی صاحب نے لیے۔ جب آپ مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے فیصلے کرتے ہیں تو وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں اور ٹھیک بھی۔ اس مرحلے پر آپ کی نیّت، غلط صحیح کا فیصلہ کرتی ہے۔ اور نیّت کے درست یا غلط ہونے کا تعین آپ کے فیصلوں کے نتائج سے ہوتا ہے۔بہرحال سولنگی صاحب کسی کی کوئی سفارش نہیں مانتے تھے۔
میرے محسن اور بھائی خلیل چوہدری صاحب ان دنوں پرائیوٹائزیش کمیش میں تعینات تھے۔ ان سے بات کی تو کہنے لگے آج کل کوئی وزارتِ اطلاعات میں ملنے والا نہیں۔بھائی خلیل سے ملاقات اور تعلق بننا بھی ایک پوری کہانی ہے۔ بل کہ وہ خود بھی ایک کہانی ہیں کہ کیسے انھوں نے مالی بھرتی ہونے سے وفاقی جوائنٹ سیکریٹری ایڈمن وزارتِ خزانہ تک کا سفر طے کیا۔
انشاءاللہ کسی وقت ان پر پورا مضمون لکھوں گا۔ آج کل وہ میری کسی غلطی کی وجہ سے ناراض ہیں۔ انشاءاللہ میں جلدی انھیں راضی کروں گا۔ایک دن بھائی خلیل کا فون آیا کہ ظہور چھوٹا بھائی ہے۔ اس کا دوست امجد بھٹی منسٹر کے ساتھ ہے۔ اس زمانے میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ تھے۔بہرحال ظہور صاحب کے توسط سے امجد بھٹی صاحب سے ملا اور بعد ازاں ٹرانسفر بھی رُک گئی۔ سولنگی صاحب پر بھی جلد ایک مضمون لکھوں گا۔
ظہور صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں اپنی پنجابی کہانیوں کی کتاب دی۔ ادب اور آرٹ کی دل چسپی نے ہمیں روز بروز قریب کرنا شروع کر دیا۔ان دنوں میں لاہور رہا کرتا تھا۔ نومبر 2010 میں وہ لاہور آئے توہم دونوں پنجابی کی نامور کہانی کار اور ناول نگار فرخندہ لودھی کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے میاں اور سراپا تہذیب صابر لودھی کے پاس ان کے گھر گئے۔ صابر لودھی صاحب ایک طویل عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو پڑھاتے رہے۔ ظہور صاحب 80 کی دہائی کے اواخر میں گورنمنٹ کالج کے جریدے “راوی” کے ایڈیٹر رہ چکے تھے۔ کافی دیر فرخندہ صاحبہ کے فن اور شخصیت کے علاوہ ہوشیار پور اور گورنمنٹ کالج لاہور کی یادوں پر بات ہوتی رہی آخر میں صابر صاحب نے ظہور صاحب اور مجھے اپنے خاکوں کی کتاب “بھلایا نہ جائے گا” دی۔
مجھے یہ کتاب اتنی اچھی لگی کہ پڑھنے کے بعد میں نے لودھی صاحب کو خط لکھا اور لودھی صاحب نے مجھے خط کا جواب بھی دیا جو اب بھی کہیں میرے پاس محفوظ ہے۔ پھر کسی شام ہم دونوں وجاہت مسعود صاحب کے گھر گئے۔ وجاہت صاحب کی بیگم تنویر جہان جو خود بھی اپنی ایک شناخت رکھتی ہیں۔ وہ ظہور صاحب کی شعبہِ فلسفہ کی سینئر تھیں۔ وجاہت اور تنویر صاحبہ سے ظہور صاحب کا تعلق اُسی زمانے سے تھا۔ وجاہت صاحب نے اپنی کتاب “محاصرے کا روز نامچہ” دی۔
یہ بی بی سی کے لئیے لکھے ہوئے ان کے کالموں کا مجموعہ تھا۔ اسی کتاب سے دیگر کئی عقلی دریچے تو واء ہوئے ہی تھے مگر جمہوری معاشرہ کیا نعمت ہے؟ اس کا تصور اسی کتاب کے مطالعے کے باعث واضح ہوا۔ ارشاد امین صاحب سے بھی وہیں پہلی ملاقات ہوئی۔ وجاہت صاحب کے لیے اپنی پنجابی کہانیوں کی کتاب “ایہہ کہانی نہیں” اور اپنے عزیز دوست اور اعلیٰ شاعر شاہد ذکی کی زور دار غزلوں کی نئی کتاب “سفال میں آگ” بھی لے گیا۔ یہ ملاقات رات گئے تک مختلف علمی ادبی موضوعات کے گرد گھومتی رہی۔
چوہدری ظہور صاحب کی تصویر بنانے کی کہانی یہ ہے کہ جب وہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارتِ امورِ کشمیر تھے تو میں ان کے دفتر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔ مجھے لگا کہ یہ بہت اچھا فریم ہے۔ فلم ٹی وی کے ٹھرک والے احباب کسی نہ کسی فریم میں کھوئے ہوتے ہیں۔ فریم کے لالچ میں بے ساختہ میں نے موبائل سے تصویر بنا لی۔بعد ازاں کسی وقت میں نے یہ تصویر ظہور صاحب کو بھیج بھی دی۔ نہ انھوں نے تصویر کی بابت کچھ پوچھا نہ میں نے بتایا۔ ایک دن دورانِ گپ شپ میں نے تذکرہ کر دیا کہ بغیر بتائے کسی کی تصویر لینا بد تہذیبی ہے، مگر میں یہ بد تہذیبی کر چُکا ہوں۔
چوہدری صاحب نے اپنے دفتر، گھر اور ملازمین سب کو بتا رکھا ہے کسی سے کوئی تحفہ ان کے لیے وصول نہیں کرنا خواہ دینے والا کوئی بھی ہو۔ایک دن برادرم عمران جاوید کے ہم راہ کسی منسٹری میں گیا ہوا تھا۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو سرِ راہ ظہور صاحب کے دفتر ملنے چلے گئے۔ ہماری موجودگی میں ہی ایک صاحب برادری کا کہہ کر کیک لے کر آگئے جو اسی منسٹری میں ملازم تھے۔
ظہور صاحب نے ہاتھ جوڑ کر بھی کہا کہ میری آپ سے لڑائی ہو جائے گی کیک میں نہیں لوں گا۔ انھوں نے بہت ضد کے باوجود کیک لینے سے انکار کردیا اور کوئی تصویر بھی نہیں بنانے دی۔میں نے ظہور صاحب کا یہ روپ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ ملاقات کے لئے آنے والے صاحب کیک کے ساتھ تصویریں بنا کر ان کا نام استعمال کریں گے۔
میری ترقی ہوئی تو ایک سہہ پہر میں نے فون کیا کہ آپ دفتر میں ہیں یا گھر؟۔ ظہور صاحب کہنے لگے، حکم کریں بھائی جی۔میں نے کہا میری ترقی ہوئی ہے کیک لے کے آرہا ہوں۔ ہنس کر کہنے لگے ابھی گھر آیا ہوں آجائیں آپ کا کیک تو ہم پر حلال ہے۔ کیک کی بات ہوئی ہے تو ظہور صاحب کے ایک شعر کا لطف لیجیے۔
کیک اچھا ہے اور چائے بھی
دیجئے اب سیاسی رائے بھی
عمومی طور پر یہ خیال مروج ہے کہ بیوروکریٹ کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ مطلب اپنے ہی دائرے میں رہتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے بنائے ہوئے دائرے میں رہتا ہے۔ یہ دائرہ فرد کے گرد حالات و واقعات بھی بنا دیتے ہیں اور ہم خود بھی اپنے گرد دائرے کھینچ کر ان میں شعوری یا لاشعوری طور مقید ہو جاتے ہیں۔
ذاتی تجربہ تو بہر حال مختلف ہے۔ جب آپ صرف کام نکالنے کے چکر میں تعلق بنانے کا بندوبست کریں گے تو تعلق بننا اپنی جگہ، دیرپا ہونے کا امکان معدوم ہو جاتا ہے۔ مرحوم خالد چیمہ صاحب، حمید رازی، ڈاکٹر شہزاد قیصر، احسن راجہ، غالب علی بندیشہ، اشفاق گھمن، رانا حسن اختر، طاہر حسن، فخر چیمہ، عرفان جاوید، فیض علی، ڈاکٹر حیدر اشرف، عدنان ارشد اولکھ، اورنگ زیب ہرل، سیف اللہ جانباز، لئیق باجوہ، مقرب اعوان، کاشف منظور اور سلیم کیانی سمیت درجنوں ایسی مثالیں ہیں۔
دوستی اور تعلق کے بھی کئی درجات ہوتے ہیں۔ بعض انتہائی قریبی دوستوں سے برس ہا برس بات نہیں ہو پاتی مگر جب بھی ملاقات یا گفت گو ہو تو برسوں کا فاصلہ معدوم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں سے روزانہ رابطے کے باوجود بھی تعلق اور دوستی نہیں بنتی۔
دراصل یہ کوئی حساب کا فارمولا نہیں کہ کون دوست ہوگا اور کس سے تعلق نہیں بنے گا۔ ہم خیال اور ہم مزاج لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں اور ان کا دوست ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
ظہور صاحب ایسے انسان ہیں کہ دفتر میں صفائی پر مامور کسی فرد کو اُٹھ کر ملیں گے اور اس کے ہونے والے کام کو ترجیح دیں گے۔ کسی پرانے دفتر کے نائب قاصد کو بھی ایسے ملیں گے جیسے کوئی بہت قریبی عزیز ہو۔ اپنے دوستوں اور عام لوگوں کو بھی وہ عزت دینا جانتے ہیں۔ وہ قدرتی طور پر بندے کی پرکھ کرنا جانتے ہیں۔ میرے جیسے عامی کو وہ کئی دفعہ سواری تک چھوڑنے آئے ہیں۔ منع کریں تو کہیں گے ذرا میری بھی چہل قدمی ہو جائے گی۔
ایک دفعہ میں اور نامور تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ، عزیز دوست فخر چیمہ کے والد کی وفات پر ان سے تعزیت کے لیے جا رہے تھے اور راہ میں ظہور صاحب کا دفتر پڑتا تھا۔ میں نے عمر سے کہا ذرا چوہدری صاحب سے سلام دعا کر لیں۔ ملاقات کے بعد اجازت چاہی تو منع کرنے کے باوجود اُٹھے ، نیچے آئے اور فخر کے دفتر تک چھوڑ کر ہی واپس لوٹے۔ ایسا بے شمار دفعہ ہوا۔ ہر دفعہ دل میں ان کے لیے عزت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
وہ درویش منش اور صوفی مزاج شخص ہیں مگر ان کے اس مزاج سے اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ بھولے بھالے ہیں اور ان کے ساتھ چالاکی چل سکتی ہے تو یہ خیال بالکل ہی غلط ہے۔ان کے دفتر روائتی طور پر چٹ بھیج کر کسی کو صاحب کے بلاوے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ ان کے دروازے ہر کسی کے لیے ہر وقت کُھلے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر وقت ملتے ملاتے ہی رہتے ہیں۔ مہمان بیٹھے ہوئے بھی ہوں تو ساتھ کام بھی نپٹا رہے ہوتے ہیں۔ وہ شام کو جب اپنے دفتر سے اُٹھتے ہیں تو کوئی فائل آنے والے کل کے لیے نہیں پڑی ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے وزارتِ اطلاعات تک وہ کئی راہ داریوں سے گزرے ہیں۔
کئی برس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں کام کیا۔پھر ساڑھے چار سال کے قریب وزارتِ خزانہ میں اہم عہدوں پر کام کیا۔ اس دوران اسمبلی میں ہونے والی بجٹ کی اردو تقریر بھی انہی کی لکھی ہوتی تھی۔گزشتہ کئی سال ہاؤسنگ کی وزارت میں انھوں نے بطور ایڈیشنل سیکرٹری کام کیا اور ڈی جی پی ڈبلیو ڈی کا چارج بھی کئی دفعہ ان کے پاس رہا۔
وزارتِ اطلاعات میں قمر زمان کائرہ کے ساتھ ڈی جی ٹو منسٹر کام کیا۔ پاکستان پریس کونسل کے رجسٹرار کے طور بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔
وزارتِ امورِ کشمیر میں سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیے۔ابھی تو انھیں سیکرٹری اطلاعات و نشریات کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر کا اضافی چارج بھی مل گیا ہے۔مطلب یہ کہ وہ وزارتِ اطلاعات میں نئے نہیں۔ اس راہ کے شناسا اور واقفِ حال ہیں۔
ہو سکتا یہ خیال آئے کہ ان کا شاعر ہونا بھی لکھنے والوں پر ان کے سیکرٹری اطلاعات ہونے کے بعد منکشف ہوا ہے، تو صاحبو ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے تذکرہ کیا تھا کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ادبی مجلّے “راوی” کے ایڈیٹر تھے۔ ایڈیٹر بننے سے پہلے وہ لکھتے تھے تو ہی اس ذمہ داری کے لیے منتخب ہوئے۔ اس زمانے میں، منیر نیازی ظفر اقبال، سبطِ حسن اور سراج منیر جیسے نابغوں سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ستمبر 2009 میں ان کی شاعری کی کتاب “یہ دل کے سلسلے” “سانجھ” لاہور سے اشاعت پزیر ہوئی۔ میرے پاس نُسخے پر ان کے دست خطوں سمیت 12 اپریل 2010 کی تاریخ درج ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی کتاب کا ٹائٹل نامور ناول نگار مرزا اطہر بیگ کا بنایا ہوا ہے۔ اس سے بھی مزے کی بات آپ کو بتاؤں کہ مرزا صاحب کے مشہورِ زمانہ ناول” غلام باغ” کا پروف ظہور صاحب کا پڑھا ہوا ہے۔اکثر لکھنے پڑھنے والے احباب برس ہا برس سے ان کے نام سے شناسا ہیں۔
وہ اپنے بارے میں کبھی بڑھ چڑھ کر بات نہیں کرتے۔ اپنے وقت کے نامور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سردار محمد چوہدری ان کے ماموں تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے لیکن “جہانِ حیرت” اور “متاعِ فقیر” ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ اپنی آخری عمر اور موجودہ صدی کے اوائل میں میری بھی ان سے ملاقاتیں رہی ہیں۔
ظہور صاحب کے ایک بڑے بھائی ڈاکٹر منظور فارن سروس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ایک چھوٹے بھائی رؤف احمد پنجاب گورنمنٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری ہیں۔ رؤف صاحب کسی زمانے میں پنجابی کہانی لکھتے رہے ہیں۔ وہ بھی انتہائی شریف طبع اور لائق افسر ہیں۔ میری ان سے ملاقات ظہور صاحب سے بھی پرانی ہے۔ ظہور صاحب کے ایک بڑے بھائی چوہدری ناصر قدرے مختلف آدمی تھے۔ وہ آزاد منش اور کُھلے ڈُھلے مزاج کے انسان تھے۔ ناصر چوہدری کے نام سے روزنامہ پاکستان لاہور میں کالم لکھتے تھے۔ میرا ان سے بھی قریبی رابطہ اور کُھلی گپ شپ تھی۔ چند ماہ قبل وہ عارضہِ قلب کے باعث اچانک انتقال کر گئے۔
ظہور صاحب شاعری اور موسیقی کی بہت شدھ بدھ رکھتے ہیں اور علم و ادب کے قدر دان ہیں۔استاد شریف خان پونچھ والے، اعجاز نبی خان، اور مظفر اکبر خان کی کچھ ریکارڈنگز دیں تو وہ برس ہا برس انھیں سُنتے رہے۔بتایا کرتے ہیں کہ مقابلے کے امتحان کے بعد انٹرویو بورڈ میں ظہور احمد آذر بیٹھے تھے۔ موسیقی پر انھوں نے سوال کیا۔ اتفاق سے تیاری تھی۔ تسلی بخش جواب پر میں بھرتی ہو گیا۔یاد رہے کہ ظہور احمد آذر صاحب ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کی اناؤنسمنٹ سب سے پہلے انھوں نے انگریزی میں کی تھی۔
ظہور احمد جس زمانے میں وزارتِ اطلاعات میں ڈی جی ٹو منسٹر تھے۔ میں ریڈیو لاہور میں میوزک کا پروڈیوسر تھا۔ معروف کلاسیکی گائیک استاد حسین بخش گُلو اور نامور موسیقار ماسٹر منظور کو پرائڈ آف پرفارمنس دلوانے کے لیے یکے بعد دیگرے میں نے لاہور سے مروجہ طریقہ کار کے مطابق ان کی سائٹیشنز لکھ کر بھیجیں۔ سارے مراحل طے کرکے جب وہ ظہور صاحب تک پہنچیں تو انھوں نے ہی اِنہیں دوبارہ سنوارا۔
اتفاق سے انھی دنوں ظہور صاحب کی دو غزلیں حسین بخش صاحب سے گانے کے لیے کمپوز کروائیں۔ غلطی سے میں ظہور صاحب کو بتا بیٹھا، تو انھوں نے مجھے گنوانے سے منع کر دیا کہ مباداً ان کے دل میں لین دین کا خیال نہ آئے۔ خان صاحب کو ایوارڈ مل جانے کے کچھ عرصہ بعد ظہور صاحب لاہور آئے تو ہم دونوں راوی روڈ سمن آباد استاد جی کے گھر گئے۔ ظہور صاحب نے گُلو صاحب کے پاؤں چھوئے اور دعائیں لیں۔ ظہور صاحب کی دونوں غزلیں خان صاحب کی بیٹھک میں ان سے سُنیں۔
ایک دفعہ ظہور صاحب اپنی تربیتی کورس کی کلاس سے فارغ ہوئے تو میں انھیں لینے آگیا۔ میرے پاس ان دونوں چھوٹی سی کورے گاڑی ہوتی تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر جا رہے تھے تو فیصل ٹاؤن اور جوہر ٹاؤن کی درمیانی سڑک پر چڑھتے ہوئے گاڑی بند ہوگئی۔ چنداں کوشش کے بعد اسٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ ظہور صاحب کہنے لگے میں دھکا لگاتا ہوں آپ اسٹارٹ کریں۔ میں نے کہا چوہدری صاحب کسی مکینک کو بلا لیتا ہوں۔ مجھے شرم آتی ہے کہ آپ دھکا لگائیں ۔ انھوں نے میری بات نہیں مانی اور واقعی گاڑی کو دھکا لگایا۔
یاد رہے کہ دھکا لگاتے وقت بھی وہ ڈی جی ٹو منسٹر تھے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے دل میں ان کی عزت میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا۔
چند ماہ قبل جب وہ وزارتِ امورِ کشمیر تھے تو میرے عزیز دوست احمد رضا چیمہ اور ان کا کینڈا سے آیا نوجوان بیٹا اور میں ظہور صاحب سے ملنے گئے تو استقبالیہ کے سامنے کھڑے سپاہی نے ہمیں روک لیا۔ میں نے ظہور صاحب کو فون کیا تو بجائے استقبالیہ پر فون کرنے یا نائب قاصد کو بھیجنے کے وہ خود اپنے دفتر سے اُٹھ آئے۔ ہمیں ساتھ لیا اور کانسٹیبل کو نرمی سے کہا یہ میرے نہایت قریبی دوست ہیں۔ اچھا ہے آپ نے اپنی ڈیوٹی نبھائی ہے میں نے اپنی۔
احمد رضا آج تک کہتا ہے ایسا بھی کوئی بیوروکریٹ ہوتا ہے؟ طویل عرصے پر محیط تعلق کے باوجود ہماری اکٹھے کوئی تصویر نہیں تھی ۔ نہ کبھی انھوں نے کسی کو کہا نہ میں نے کہ ایک ہماری تصویر تو بنا دیں۔ برادرم اشفاق گُھمن کی دختر کی شادی میں ایسے کہیں بے دھیانی میں عزیزم یاسر گھمن نے ایک تصویر بنا دی جس میں بریگیڈیئر (ر) اسلم گُھمن، ظہور صاحب اور میں کھڑا ہوں۔ یا چند روز قبل ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں استاد شفقت سلامت کے پروگرام کے بعد برادرم ذیشان خٹک نے عکسی مفتی، ظہور صاحب اور میری تصویر بنا دی۔مطلب ظہور صاحب ایسے معاملات کے شائق نہیں۔
ظہور صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلاسفی میں ماسٹرز کیا۔ اردو میں بھی وہ ایم اے ہیں۔ شاعر بھی اچھے ہیں۔ ایک دفعہ گپ شپ لگاتے ہوئے میں نے کہا چوہدری صاحب ایک ناول لکھیں آپ کا بہت مضبوط پس منظر ہے لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ہنس کر کہنے لگے اس کا مطلب ہے۔ میں شاعر اچھا نہیں ہوں؟ چند ماہ قبل انھوں نے نامور گلوکار کار شوکت علی کی گائی ہوئی اپنی غزل کا لنک شیئر کیا۔ یہ غزل دہائیوں پہلے پی ٹی وی کے کسی شو میں گائی گئی تھی۔
“تو پھر ہم اس طرح کرتے ہیں
اس کو بھول جاتے ہیں، کسی اور سے دل لگاتے ہیں”
شوکت علی کسی نوجوان شاعر کی غزل گائیں تو یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنی شاعری بھرپور طریقے سے سامنے لائیں گے۔
ان کا اپنا ہی شعر ہے
جی سر جی سر چھوڑ کے تم بھی لکھنا وکھنا شروع کرو
تم بھی دیکھو آزادی کا خواب کوئی، سب دیکھتے ہیں
سروس کے دوران کسی بھی مرحلے پر انھوں نے اپنے عہدے سے اپنے فن کی ترویج کو ارادتاً باز رکھا ۔ وہ ادبی محافل میں بھی خال ہی جاتے ہیں۔انھیں خود پر صدقے واری ہونے کی عادت نہیں۔ وہ ہونے والے کام کو روکتے نہیں اور نہ ہونے والے کے بارے میں واضح نہ کر دیتے ہیں۔
کتنا ہی تعلق کیوں نہ ہو نہ کرنا انھیں مشکل نہیں لگتا۔ وہ انکار بھی اتنے پیار سے کرتے ہیں کہ سننے والا بھی عموماً برا نہیں منا تا۔اس لیے نہیں کہ وہ وفاقی سیکرٹری ہیں بطور دوست مجھے آج لگا ہے کہ میں تو ان پر بہت لکھ سکتا ہوں۔ اور بھی لکھیں گے، فی الحال چوہدری ظہور احمد کی کامیابی کے لیے بہت دعائیں۔