نائیجیریا کے صوبے زمفارا میں مسلح افراد نے یونیورسٹی کے قریب ہاسٹلز پر حملہ کر کے 24 طالبات سمیت 30 سے زائد افراد کو اغوا کر لیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق درجنوں مسلح افراد نے جمعہ کے روز فیڈرل یونیورسٹی کے قریب واقع سبون گیڈا گاؤں پر دھاوا بولا، وہ خواتین کے 3 ہاسٹلز میں داخل ہو گئے، توڑ پھوڑ کی اور طالبات اور دیگر افراد کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
ملکی سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کا اعادہ کرنے والے صدر بولا احمد تینوبو کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی کالج میں اجتماعی اغوا کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
سبون گیڈا کے رہائشی صحابی موسیٰ نے میڈیا کو بتایا کہ مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر گاؤں میں آئے اور ہاسٹل میں گھس گئے اور کھڑکیاں توڑ کر کمروں میں داخل ہو گئے۔، وہ کم از کم 24 طالبات اور دو مرد پڑوسیوں کے اغوا کر کے لے گئے، جن میں سے ایک یونیورسٹی کے عملے کا رکن ہے۔
ایک اور رہائشی شیہو ہاشیمو نے بتایا کہ حملہ آور یونیورسٹی میں گئے اور ایک نئی عمارت میں کام کرنے والے 9 ویلڈرز کو سوتے ہوئے پکڑ لیا، ان ویلڈرز میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، حمہ آور رات 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کارروائی میں مصروف رہے۔
مزید پڑھیں
رپورٹس کے مطابق گساؤ سے 20 کلو میٹر دور فوجیوں اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا لیکن اغوا کاروں کا ایک گروپ یرغمالیوں کو اپنے ساتھ لے گیا جبکہ دوسرا گروپ فوجیوں کے ساتھ لڑنے میں مصروف رہا۔
حملے کے بعد سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں ایک ہاسٹل میں ٹوٹے ہوئے کمروں کو دکھایا گیا ہے۔
زمفارا ریاستی پولیس کے ترجمان یزید ابوبکر نے حملے کی تصدیق کی لیکن تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی اہلکار قیدیوں کو چھڑانے کے لیے آپریشن کر رہے ہیں۔ ایک فوجی افسر نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے 6 طالبات کو بچا لیا ہے۔
زمفارا شمال مغربی اور وسطی نائیجیریا کی متعدد ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں جنگلوں میں چھپے ڈاکو دیہی علاقوں کے رہائشیوں کو قتل اور اغوا کرتے ہیں اور لوٹ مار کے بعد گھروں کو جلا دیتے ہیں۔
فروری 2021 میں ڈاکوؤں نے زمفارا کے قصبے جنگیبی میں لڑکیوں کے بورڈنگ اسکول پر حملہ کر کے 300 سے زائد طالبات کو اغوا کر لیا تھا۔
لڑکیوں کو چند دن بعد حکام کی جانب سے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کر دیا گیا۔
واضح رہے نائیجیریا کو متعدد سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں شمال مشرق میں 14 سالہ عسکریت پسند بغاوت بھی شامل ہے جس میں کم از کم 40,000 افراد ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔