پھر ہوا یوں کہ اچانک مشکوک قسم کے سیاسی پنڈتوں نے ایک بار پھر غیر فطری پیشن گوئیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اچانک بتنگڑ بنانے والے یوٹیوبرز کو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سے روشنی کی ایک کرن نظر آنا شروع ہو گئی۔ ایک دم سے جلالی تجزیہ کار اور شعلہ بار تبصرہ نگار سکرینوں پر نمودار ہونے لگے۔ دور عمران کے نقوش کے طور پر چینلوں کی سکرینوں پر جمے اینکروں نے دبے دبے لفظوں میں عہد عمران کی خوبیاں گنوانا شروع کر دیں۔
چند کالم نگاروں نے بھی اپنے کالموں کی سرخیوں میں ’ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے‘ ٹائپ کی خوشخبریاں دینا شروع کر دیں۔ نجومی، قیافہ شناس اور ٹیرو کارڈ پڑھنے والوں نے بھی مستقبل میں عمران خان کے لیے بہتر حالات کی پیش گوئیاں شروع کر دیں۔ چند ایک نے عمران خان کی متوقع رہائی کے حوالے سے خوشخبریاں سنائیں، کسی نے خان کے دوسری دفعہ وزیر اعظم بننے کا مژدہ سنایا اور کسی نے ’راج کرے گی خلق خدا‘ والا نغمہ گایا۔
یہ سب کچھ ہوا اس وجہ سے کہ چند ایک ایسے اقدامات ہوئے جن سے لوگوں نے یہ اندازے لگائے کہ اب ریاست ’یو ٹرن‘ کی طرف مائل ہے، ریاست کو ایک بار پھر عمران خان پر لاڈ آ رہا ہے۔ ایک بار پھر ریاست عمران خان کو گود لینا چاہتی ہے۔ ایک دفعہ پھر کہیں عمران خان کی خاطر سب کچھ تہہ و تیغ کرنے کا ارادہ بن رہا ہے۔ عمران خان کو مسند اقتدار پر دیکھنے کا پھر خواب دیکھا جا رہا ہے۔
لوگوں نے یہ اندازے اس لیے لگائے کہ اچانک ایک اینکر اور یو ٹیوبر عمران ریاض خان رہا ہو گئے۔ سیالکوٹ پولیس ان کو صبح 5 بجے گھر چھوڑ گئی۔ اچانک صنم جاوید اور ساتھیوں کی ضمانت ہو گئی۔ ایک دم سے عمران خان کو اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے بھی اشاروں کنایوں میں یہ بتایا کہ عمران خان ریاست کے خلاف مزاحمت سے تائب ہو گئے ہیں اور اب اچھے بچے بن کر سیاست کرنے کی خواہش ان کے دل میں مچل رہی ہے۔
ہم یہاں صرف یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ریاست عمران خان کو 4 ماہ بعد معاف کر سکتی ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کا غصہ جھاگ بن کر بیٹھ چکا ہے؟ کیا بعض دل اب عمران خان کی محبت میں دھڑکنے لگے ہیں؟ کیا اب نواز شریف، زرداری پر بے اعتباری کا موسم آ چکا ہے؟ کیا ایک دفعہ پھر تمام سیاسی قوتوں کو گالی پڑنے کا مرحلہ آ چکا ہے؟ کیا ایک دفعہ پھر ’کرپشن کرپشن‘ کے نعرے کی آڑ میں کرپشن کا پروگرام بن چکا ہے؟ کیا ایک دفعہ پھر آئین کی تضحیک اور پارلیمان کی توہین کا عہد کیا جا چکا ہے؟
ان خوش گمانیوں، پیش گوئیوں پر قربان جانے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس بات کو ماننے میں کوئی باک نہیں کہ ماضی میں ریاست بڑی بڑی غلطیاں معاف کرتی رہی ہے۔ جنرل ضیاء نے تمام تر کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کا نام بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے مگر انہی کے دور میں ان کی مرضی سے بے نظیر واپس آئیں اور ان کا بال بیکا بھی نہ کیا جا سکا۔ جنرل مشرف نے فیصلہ کیا کہ یہاں نواز شریف اور بے نظیر کی سیاست نہیں چلے گے مگر دونوں انہی کے دور میں واپس آئے، ان کی غلطیاں ڈکٹیٹروں نے معاف کر دیں، یہ تو پھر نام نہاد جمہوریت ہے۔ کیا عمران خان کی غلطیاں معاف نہیں ہو سکتیں؟
بس تھوڑی سی بات سمجھنے کی ہے۔ ریاست نے جب بے نظیر، نواز شریف کی جانب صلح کا پرچم لہرایا اس وقت تک کئی برس گزر چکے تھے۔ عمران خان کی مشکلات کو ابھی صرف 4 ماہ ہوئے ہیں۔ ریاست کا حافظہ کمزور ہے لیکن اتنا بھی کمزور نہیں کہ 4 ماہ پہلے والی بات کو بھول جائیں۔ ابھی تو بچے بچے کے ذہن پر 9 مئی کے فتنہ و فساد کے نقش محفوظ ہیں۔ ابھی تو شہدا کی یادگار پر لگائی جانے والی آگ کی تپش سینوں میں زندہ ہے۔ ابھی تو جی ایچ کیو کو فتح کر لینے والے شرپسندوں کی تصاویر یادوں میں محفوظ ہیں، ابھی تو کور کمانڈر ہاؤس کو جلانے والے زندہ سلامت گھوم رہے ہیں۔ ابھی تو فوجیوں سے بھری جیپ پر پتھر پھینکنے والوں کا احتساب ہونا باقی ہے۔ اتنی جلدی واپسی کا سفر ممکن نہیں ہوتا۔ اتنی جلدی یادداشت میں لگے زخم نہیں بھرتے۔
پھر ریاست ایک اور خطرے سے بھی دوچار ہو سکتی ہے۔ ایک لمحے کو اگر فرض کریں کہ ریاست کا دل ایک بار پھر عمران خان کے حوالے سے موم ہونے لگا ہے تو چاہنے کے باوجود بھی وہ اب اپنے اگلے قدم سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
عمران خان پر یوٹرن لینے کا مطلب یہ ہو گا کہ ریاست ہر سیاسی جماعت کو اس بات کی اجازت دے رہی ہے کہ اگر آپ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کور کمانڈر ہاؤس کو جلا دیں تو اس کی سزا صرف 4 ماہ ہے۔ ریاست دوسری سیاسی پارٹیوں کو ترغیب دے رہی ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ بے شک کریں مگر اس کے لیے 4 ماہ کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ ریاست اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کر دیں اس کے بدلے میں صرف4 ماہ کی قید آپ کا مقدر بنے گی۔
ایسا ممکن نہیں ہے۔ عمران خان کے جرائم ریاست کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔ ان کو کھرچ کھرچ کر بھی نکالا نہیں جا سکتا۔ ابھی عمران خان کے دور عقوبت و اذیت کا آغاز ہوا ہے، ابھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔
ممکن ہے کہ عمران خان کی سختی معاف بھی ہو جائے مگر اس معافی کے لیے عموماً ایک دہائی درکار ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سپورٹرز کو یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اب عمران خان قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ اس بات کا ادراک ان کی پارٹی کے بہت سے ابن الوقت لوگوں کو ہو چکا ہے۔ آنے والے الیکشنز میں عمران خان سیاسی منظر نامے پر کہیں نظر نہیں آ رہے۔ خان صاحب اب صرف ایک پرانی تصویر ہیں جو سابق وزرائے اعظم کی تصاویر کے ساتھ کسی دیوار پر آویزاں رہے گی۔