چین کا ’کل اور آج‘، خانہ جنگی کا شکار ملک عالمی طاقت کیسے بنا؟

اتوار 1 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمہوریہ چین قوموں کی برادری میں بحیثیت ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناطے تیزی سے ترقی کرنے والا جادوئی ملک ہے جو خاص ثقافت، روایات اور قدیم تہذیب رکھتا ہے۔

چینی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک میں ہوتا ہے، اس تہذیب کی عمر تقریباً 5،000 سال پرانی ہے جب کہ اس کا پہلا تحریری ریکارڈ 4 ہزار قبل مسیح کا ہے۔

چینی تہذیب کا آغاز ہوانگ ہو اور یانگزی دریاؤں کے بیچ سے ہوا اور یہ وہی علاقے تھے، جہاں سے کسانوں کی قدیم بستیاں پہلے چینی قصبوں میں اور پھر قومی یونینز میں تبدیل ہوئیں۔

چینی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا دور، قبل از سامراجی چین (221 قبل مسیح تک ژیا، شانگ، ژو کے خاندانوں کی حکمرانی)

دوسرا دور،  شاہی چین کن خاندان( 221 قبل مسیح سے چِنگ خاندان کی حکمرانی 1911تک)

تیسرا دور، نیا اور جدید چین1911 سے دور جدید تک، اس دور کے بانی ماؤزے تنگ تھے۔

چین  سامراجی تاریخ سے قبل ایک غیر مستحکم سیاسی طاقت کی علامت کے طور پر جانا جاتا تھا، جو بنیادی طور پر ایک ہی خاندان اور مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا رہا۔

اس میں چھوٹی ریاستوں اور صوبوں کے گورنر جنرل درحقیقت حکمرانوں کے اختیار سے مکمل آزاد تھے۔ اس دور کے 3 خاندانوں میں سے سب سے طاقتور خاندان شانگ خاندان تھا تاہم یہ خانہ جنگی سے بچنے میں کامیاب نا ہو سکا،جس کے باعث بالآخر شانگ ین ریاست زوال پذیر ہو کر اپنے اختتام کو پہنچی۔

شاہی خاندانوں کی چینی تاریخ 221 قبل مسیح سے 1911 عیسوی تک کے ایک بڑے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ چین 8 طاقتور خاندانوں چن ہان، سوئی، تان، سونگ، یوآن، منگ اور چنگ کے تحت دنیا کے مضبوط ترین ممالک میں سے ایک کے طور پر ترقی کرتا ہوا آج براعظم ایشیا کا صفِ اوّل کا ملک بن گیا۔

ایک واحد اور مربوط ملک کے طور پر چین کی ترقی شہنشاہ چن شی ہوانگ دی (221 قبل مسیح) کے تحت شروع ہوئی ، جس نے 7 چینی ریاستوں کو متحد کیا اور بہت سے ملحقہ علاقوں کو فتح کیا۔

چن شی ہوانگ دی نہ صرف چین کے لیے اپنی سیاسی خدمات کے لیے مشہور ہیں ، بلکہ یہ اپنی مشہور ’ٹیراکوٹا ‘ آرمی کے حوالے سے بھی مشہور ہیں، جو آج بھی قائم ہے اور تقریباً 2،000 سال سے ان کے مزار کے داخلی دروازے کی حفاظت کر رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد چین کی تاریخ میں تانگ خاندان (618-907 ء) کے دور کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے جس نے چین کی تاریخ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ تانگ خاندان کی حکمرانی کو اکثر چین کا ’سنہری دور‘ کہا جاتا ہے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں چین کو چنگیز خان کی سربراہی میں منگولوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی تاریخ کا یہ دور سب سے زیادہ المناک ہے، کیونکہ منگولوں نے عملی طور پر پورے چینی علاقے پر قبضہ کرلیا اور پھر وہاں یوآن کے اپنے منگول خاندان کی بنیاد رکھ دی تھی۔

تاہم اس قبضہ کے خلاف چین کے غیور لوگ خاموش نہ بیٹھے اور بالآخر انہوں نے سنہ 1644  میں چینوں نے مانچو خاندان کی سربراہی میں منگول خاندان پر دوسری بار حملہ کیا اور منگ خاندان کا تختہ الٹ دیا اور چین پر حکمرانی کا جھنڈا تھام لیا۔ چن کا مانچو خاندان چین کا آخری شاہی خاندان تھا۔

چین کے عوام نے یہاں پر بھی بس نہ کیا تو بالآخر1911  میں چین میں ماؤزے تنگ کی سربراہی میں انقلاب برپا ہو گیا جس کے بعد سے شاہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا۔ 1949 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی گومنڈانگ (کومنتانگ) پر فتح کے بعد ماؤ زے تنگ کی سربراہی میںعوامی جمہوریہ چین کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔

اتوار کوچینی قوم بطورعوامی جمہوریہ چین کے طور پر صدرشی جن پنگ کی قیادت میں ایک ایسے وقت اپنی 74 ویں سالگرہ بنا رہی ہے، جب اس کی زبردست قیادت نے اس تباہ حال اور خانہ جنگی کا شکار قوم کو یکجا کر کے قوموں کی برادری میں سپرطاقت کے مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے۔

آج چین اپنی عمدہ معاشی، سماجی اور اقتصادی پالیسیوں کی بدولت دُنیا میں سر فخر سے بلند کیے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، ایسا تبھی ممکن ہوا جب اس کی دیانت دار قیادت نے اپنے بانی قائد ماؤزے تنگ کی پالیسیوں پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔

ماؤزے تنگ نے  اپنے ایک خطاب میں حق القین کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’اگر آپ ناشپاتی کا ذائقہ جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو ناشپاتی خود کھا کر دیکھنا ہوگا۔ اگر آپ انقلاب کا نظریہ اور طریقہ جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو انقلاب کا حصہ بننا ہوگا کیوں کہ تمام حقیقی علم براہ راست تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

پورے عالم نے دیکھا کہ اپنی بقا کے لیے دُنیا کا بڑا عجوبہ ’دیوار چین‘ تعمیر کرنے والی قوم نے کیسے اپنی محنت اورلگن سے دُنیا میں انقلاب برپا کیا اور اپنے ملک پر ہونے والے سماجی، معاشی اور اقتصادی حملوں کے آگے اپنی محب الوطنی کی ’دیوارچین‘ کھڑی کر دی۔

ماؤزے تنگ نے اپنی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ قیادت کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کسی بھی تاریخی عمل سے گزرنے کے دوران اس میں آنے والے ہرموڑ پرغالب تضاد یا ٹکراؤ کی نشاندہی کرے اور پھر اس تضاد کو حل کرنے کے لیے ایک مرکزی لائن وضع کرے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب ایک بار جدوجہد کا راستہ اپنا لیا جاتا ہے تو پھر اس میں معجزات خود بخود رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

چین کی 74 ویں سالگرہ پر پاکستان کو بھی فخر ہے، کیوں کہ جب چین نے ’عوامی جمہوریہ چین‘ کے طور پر اپنے آزاد اور خود مختار وطن کا اعلان کیا تو اس وقت پاکستان کو بھی آزاد ہوئے 2 سال گزر چکے تھے، پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے سب سے پہلے چین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا۔

پاکستان کے اسی دوستانہ رویے پر چین کی قوم اور اس کی قیادت آج بھی پاکستان پر اپنی جان نچھاور کرنے کو بھی تیار ملتے ہیں، چین نے پاکستان کو اپنا آئرن برادر ملک قرار دیا اور پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو ہمالیہ سے بھی بلند ہونے کا درجہ دیا۔

پاکستان اور چین کی دوستی آج بھی لازوال ہے، ہر مشکل وقت میں چین نے آگے بڑھ کر پاکستان کی بے لوث مدد کی۔ ہرمقام اور فورم پر پاکستان کی سلامتی کا دفاع کیا۔

اتوار کو نگراں وزیراعظم اور دیگر قومی و عسکری قیادت نے چین کی 74 ویں سالگرہ پر اپنے اپنے تہنیتی پیغامات میں چینی قیادت اور قوم کو مبارک باد دی اور کہا کہ آج کی دنیا میں چین امن ، استحکام کے ساتھ ساتھ ترقی اور خوشحالی کا مرکز بن چکا ہے۔ ’پاک چین دوستی زندہ باد‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp