تعلیم کس طرح انسان کو معاشی و سماجی اعتماد بخشتی ہے اس کا اندازہ عالمی بینک کے اس تجزیے سے ہو سکتا ہے کہ اسکول میں گزارا گیا ہر ایک سال بچے کے معاشی مستقبل کے امکانات میں 9 فیصد کا اضافہ کر دیتا ہے۔
یونیسکو کے عالمی جائزے کے مطابق اس وقت 6 سے 18 برس کے 25 کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ 15 برس سے اوپر کی 10 فیصد آبادی ’چٹی ان پڑھ‘ ہے۔ 10 فیصد آبادی پرائمری پاس ہے اور 5 فیصد لوگ پرائمری مرحلے کے ڈراپ آؤٹ یعنی نیم خواندہ ہیں۔
سنہ 1950 میں دنیا کی محض ایک فیصد آبادی سیکنڈری درجے سے اوپر کی تعلیم یافتہ تھی۔ آج یہ تناسب 12 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے جائزے کے مطابق اسکول سے یونیورسٹی لیول تک ایک بچہ اوسطاً 12 اعشاریہ 8 برس تعلیمی اداروں میں گزارتا ہے مگر ہر ملک کی اوسط مختلف ہے۔
مثلاً آسٹریلیا میں اسکول سے پوسٹ گریجویشن لیول تک پڑھائی کا دورانیہ 21 اعشاریہ ایک برس، نیوزی لینڈ میں 20 اعشاریہ 3 برس اور یونان میں 20 برس ہے۔ زیادہ تر ترقی یافتہ اور متوسط ممالک میں بچے تعلیمی اداروں میں 14 سے 20 برس گزارتے ہیں۔ خلیجی ممالک کا اوسط بھی یہی ہے۔ ترکی میں یہ دورانیہ 18، اسرائیل میں 16 اور ایران میں 15 برس ہے۔
جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو سری لنکا میں ایک بچہ اوسطاً 14، بھوٹان اور نیپال کا بچہ 13 برس تعلیمی اداروں میں گزارتا ہے جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت میں مسلسل پڑھائی کا اوسط دورانیہ 12 برس ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے قبل ایک افغان بچہ اوسطاً 10 برس تعلیم حاصل کرتا تھا۔
پاکستان میں کسی بچے کے تعلیمی ادارے میں اوسط وقت گزارنے کا دورانیہ محض 9 برس ہے۔ 1993 ممالک کی فہرست میں پاکستان 185 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان سے نیچے 8 افریقی ممالک ہیں۔ ان میں سے اریٹیریا، سینٹرل افریقن ریپبلک، چاڈ اور سوڈان میں بچے اوسطاً 8 برس، جبوتی، مالی اور نائجر میں 7 برس اور جنوبی سوڈان میں ایک بچے کو اوسطاً 6 گھنٹے کا اسکول ہی نصیب ہے۔
عالمی آمدنی کا اوسطاً 4 اعشاریہ 33 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر صحت، تعلیم اور دفاعی اخراجات کا بریک اپ کیا جائے تو دنیا صحت پر 9 ٹریلین، تعلیم پر 5 ٹریلین اور دفاع پر 2 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ کر رہی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اور تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ممالک پاگل تو نہیں ہیں جو بیشتر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں تعلیم پر دوگنا خرچ کرتے ہیں۔ امریکا کل قومی آمدنی کا سوا 6 فیصد اور جنوبی امریکا کا ملک بولیویا 10 فیصد خرچ کرتا ہے۔ افریقی ممالک میں نمیبیا اپنی قومی آمدنی کا پونے 10 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ ایشیا میں سعودی عرب تعلیم پر کل قومی آمدنی کا پونے 8 فیصد لگا رہا ہے۔ جبکہ یورپی یونین میں تعلیمی بجٹ ساڑھے 5 فیصد ہے۔ گرین لینڈ میں تعلیم پر قومی آمدنی کا ساڑھے 10 فیصد حصہ خرچ ہوتا ہے۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں تعلیم کے شعبے پر کل قومی آمدنی کا محض 2 اعشاریہ 38 فیصد خرچ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس نیپال کا تعلیمی بجٹ قومی آمدنی کے اعتبار سے 4 اعشاریہ 18 فیصد، بھارت کا پونے 5 فیصد، ایران اور چین کا تعلیمی بجٹ علی الترتیب 3 اعشاریہ 60 فیصد ہے۔
اعداد و شمار بھلے کتنے ہی افسوس ناک ہوں مگر ہماری اکڑ اور ششکے فرسٹ ورلڈ والے ہیں۔ ہماری نرگسیت کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ سوا 2 کروڑ بچے اسکول سے باہر ہونے کے باوجود تعلیم پر جنوبی ایشیا میں سب سے کم خرچ کرنے کا ہمیں کوئی خاص دکھ بھی نہیں۔ کوئی دکھ ہے تو بس یہ کہ جب بھارت چاند پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا تو ہمارا سپارکو کم بخت کہاں سویا ہوا تھا؟
ہم معجزوں کی زمین ہیں۔ اپنا ٹینک، ڈرون اور بم تو بنا لیا مگر اپنے بچے اسکول سے باہر لور لور گھومنے کے باوجود دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی خواہش پہلے سے زیادہ ہے۔ یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں کہ جن ممالک میں خواندگی کا تناسب بہتر ہے وہاں دہشت گردی اور سماجی افراتفری کا تناسب کیوں کم ہے؟ امن و امان کیوں قابو میں ہے، کرپشن کم کیوں ہے، بیرونی سرمایہ کار وہاں کیوں جانے کو ترجیح دیتا ہے۔
جو تعلیم مل بھی رہی ہے اس کا معیار کیا ہے۔ ڈگریاں کس طرح لی اور دی جا رہی ہیں۔ خیببر پختونخوا میں ڈینٹل اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبا و طالبات نے جس طرح اینٹری ٹیسٹ میں بذریعہ بلیو ٹوتھ سیندھ لگانے کی کوشش کی۔ یہ کوئی ایک واقعہ تھوڑی ہے۔ بس اتنا ہے کہ یہ واردات پکڑی گئی۔
جو بچے اپنے اساتذہ، بارسوخ والدین اور ایجوکیشنل مافیاؤں کی مدد سے پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں وہ ہمیں اور اپنے آپ کو تو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن جب باہر اسی ڈگری کو سیڑھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اٹک جاتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے اس استاد کا جس نے مشکوک طریقے سے اعلیٰ تعلیمی ڈگری لی اور اگلے 30 برس تک وہ نئی نسل کو پڑھائے گا۔ تصور کیجئے اس ڈاکٹر کا جس نے ناجائز طریقے سے زور لگا کے طب کی سند تو لے لی مگر آپریشن ٹیبل پر میں اور آپ لیٹے ہوئے ہیں اور اس کے ہاتھ میں نشتر ہے۔
تصور کیجیے شارٹ کٹ لگا کے انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے ماہر کا۔ جو میرے اور آپ کے لیے پل بنا رہا ہے، رہائشی عمارات ڈیزائن کر رہا ہے یا انٹرویو بورڈ میں بیٹھ کے حلالی ڈگری حاصل کرنے والوں کے انٹرویوز لے کے ان کے مستقبل کا فیصلہ کر رہا ہے۔
جس گھر کو دیمک لگ جائے وہ بھی طوفان آنے تک کھڑا رہتا ہے۔ ہم راتوں رات تو اس کینسر سے نجات حاصل نہیں کر سکتے مگر دعا تو کر سکتے ہیں کہ کبھی تیز ہوا نہ چلے۔
پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب
کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب