مجھے ہمیشہ سے ٹیسٹ کرکٹ پسند رہی ہے ۔ صبح 10 بجے عموماً شروع ہونے والا ٹیسٹ میچ، دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں یا رات کے 3 بجے جب صرف آپ اور ساتھ والوں کا ککڑ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ اِدھر اُدھر صوفے پر گرے ہوئے ٹیسٹ میچ دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔ مگر ورلڈ کپ کی بات آتی ہے تو نا ٹی 20 کا مزہ اور نا ہی ٹیسٹ کرکٹ چیمپئن شپ ۔ وہ جیسے کہتے ہیں نا لاہور لاہور اے، ویسے ہی ورلڈ کپ 50 اوورز والا ہی ہے۔
ٹی20 کرکٹ اتنا دیکھ چھوڑا ہے کہ اب 50 اوورز دیکھنا کافی محنت طلب لگ رہا ہے ۔ لیکن ایشیاء کپ نے اچھی پریکٹس کرا دی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایشیاء کپ میں 10 اوورز دیکھنے کو ملتے تھے اور باقی 8 گھنٹے بارش ۔ یہ ٹورنامنٹ نہیں، سیلاب تھا جس کے ریلے میں ہم سب کی امیدیں بھی بہہ گئی۔
خیر، یہ ورلڈ کپ بھارت میں ہو رہا ہے جہاں کا ویزا لگنے پر میں پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔ میں ایک پوڈ کاسٹ سن رہی تھی” بٹا فاسٹ “کے نام سے جس میں وسیم بھائی نے 1996-97 میں پاکستان کے دورہ آسٹریلیا کا ذکر کیا ۔ ٹیم میں کھلاڑی زخمی تھے اور بطور کپتان، وسیم اکرم نے تقریبا ہر کھلاڑی سے بولنگ کرا دی ۔ ایک مہینے کے اس دورے پر سوائے فیلڈنگ کے کوئی پریکٹس نہیں کی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان وہ سیریز جیت گیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ اب سب کچھ چھوڑ کے حیدرآباد کی بریانی ہی کھاتے رہیں ۔ بلکہ جو موجود ہے، اس کا فائدہ اٹھائیں۔
نسیم شاہ کا زخمی ہونا پوری قوم پر ایک قیامت بن کر گرا۔ میں نے بھی ریکارڈ 7 گھنٹے آنسو بہائے ۔ پھر سپنرز پر بات شروع ہوگئی کہ وہ بھی پرفام نہیں کر پا رہے ۔ حتی کہ بات اس لیول پر چلی گئی جہاں مجھے لگا کے ٹیم میں ہے ہی کوئی نہیں اور ہمارا جہاز خالی گیا ہے بھارت ۔ او بھائی! اتنا بھی کیا مایوس ہونا ؟ وسیم بھائی نے آسٹریلیا کے دورے پر اعجاز احمد سے بھی بولنگ کرا لی، تو کیا بابر دو میچز میں بولنگ نہیں کروا سکتے ؟ جب جب ضرورت پڑے گی، ٹیم کو پرفام کرنا ہو گا ۔ دلیری سے، بغیر ٹینشن کے، اِس یقین کے ساتھ کے جہاز خالی نہیں گیا تھا، اس میں کھلاڑی ہی تھے۔
بھارت میں کوئی ٹورنامنٹ ہو اورکھانے کی بات نا ہو ۔ کھلاڑیوں کے زخمی ہونے سے زیادہ پریشانی ان کے کھانے کی ہے ۔ اب تک جتنی بریانی وہ کھا چکے ہیں، مجھ جیسا تو حالت کوما میں ہی چلا جائے ۔ قورمہ نہیں، کوما ! مذاق کے علاوہ، میں نے اِس ٹیم سے زیادہ متحد ٹیم پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ کپتان پر اعتماد، آپس میں شغل میلا، سیاست سے دور، اِس ٹیم میں وہ سب کچھ ہے جو آپ کو بہت اچھا محسوس کرواتی ہے ۔ سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی، سب ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لیکن یہ بھائی بھائی اور حوصلہ صرف اپنی ٹیم تک رکھیں ۔ جب میدان میں آنا ہے تو اگلی ٹیم کو پتہ چلنا چاہیے کے ہم بھی کھیلنے آئے ہیں، نہ کہ صرف ان کو کھلانے آئے ہیں۔شعیب اختر والی دلیری، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسی نپی تُلی گیند بازی اور عمران خان جیسا اعتماد۔ میرے مطابق ٹیم کو جیت کے لیے یہی سب درکار ہے ۔
جہاں تک تکنیکی سوال ہے تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہم دوسری سلپ کیوں نہیں رکھتے ؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک بولر کو مار پڑنے لگ جاتی ہے تو ہم اس کا ہی کوٹہ پُورا کرنے کیوں لگ جاتے ہیں ؟ میرے بس یہی تحفظات ہیں ۔ باقی یہ ٹیم سمجھ میں نہیں، دِل میں آتی ہے ۔ جس دن ان کا دِل کیا، یہ جیتیں گے ۔ جس دن نہیں، اس دن آپ لوگ بھی بریانی کھا کے سوچ لینا کہ اگلی ٹیم بھی کھیلنے ہی آئی تھی۔