سینیئر سائیکائٹرسٹ اور پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ (پی اے ایم ایچ) کے صدر ڈاکٹر سید علی واصف نے کہا ہے کہ ملک کے لیے تربیت یافتہ نفسیاتی ماہرین کی کمی ایک اہم چیلنج ہے کیوں کہ یہاں 4 لاکھ افراد کے لیے صرف ایک ماہر نفسیات خدمت انجام دے رہا ہے جس سے مطلوبہ سطح کی دیکھ بھال فراہم کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار نے پی اے ایم ایچ کی جانب سے دماغی صحت کے عالمی دن کی مناسبت سے پیر کو آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب کے دوران کہی۔ اس سال کا ہے ’مینٹل ہیلتھ ایک عالمی انسانی حق ہے‘۔
صدر ڈاکٹر سید علی کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت کے مسائل کی نشاندہی اور پہچان کے لیے جنرل فزیشنز، پیرا میڈیکل اسٹاف، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور اسکول ٹیچرز کو تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے۔
سندھ میں کوویڈ کے دوران ڈپریشن کا پھیلاؤ 42 فیصد تھا، تحقیق
انہوں نے بتایا کہ سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے سندھ میں کوویڈ کے بعد کی گئی ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ڈپریشن کا پھیلاؤ 42 فیصد تھا۔ شرکا میں سے، 10 فیصد نے کوئی نفسیاتی تشخیص حاصل کرنے کی اطلاع دی اور 25 فیصد نے غیر فعال خودکشی کا خیال آنے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار تشویشناک ہیں اور مناسب مداخلت کی ضرورت ہے۔
صدر پی اے ایم ایچ نے کہا کہ صحت کو مکمل جسمانی، ذہنی اور سماجی بہبود کی حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور صحت کی اس حالت کو حاصل کرنے کے لیے سماجی بہبود اور انسانی حقوق کا مناسب خیال رکھنا ضروری ہے۔
’بچوں میں غذائی کمی بھی ذہنی بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے‘
ڈاکٹر سید علی واصف نے کہا کہ اگرچہ جسمانی اور نفسیاتی صحت بہت اہم ہے لیکن سب سے لازمی حصہ سماجی صحت ہے جس میں انسانی حقوق شامل ہیں اور نظام کے بنیادی پہلو کو تشکیل دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا ہر فرد کو معیاری دیکھ بھال تک رسائی ہونی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ماؤں اور بچوں کے لیے مناسب قبل از پیدائش اور بعد از پیدائش خدمات ضروری ہیں اور ایسے علاقوں میں پیدا ہونے والے بچے غذائیت کی کمی، نشوونما میں تاخیر اور مرگی کا شکار ہو سکتے ہیں جو ممکنہ طور پر جوانی میں ذہنی بیماری اور معذوری کا باعث بنتے ہیں جو عالمی اقتصادی بوجھ میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
’وسیع تر ذہنی صحت کے پروگرام کی ضرورت ہے ‘
صدر پی اے ایم ایچ نے کہا کہ ذہنی صحت تک رسائی تمام انسانوں کے لیے ایک عالمی حق ہے، مذہب، ذات یا طبقے سے قطع نظر معاشرے کے مختلف طبقات میں 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری آبادی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک وسیع تر ذہنی صحت کے پروگرام کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں تقریب کا آغازپر پی اے ایم ایچ کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر سید ہارون احمد کے فارماسیوٹیکل اسٹالز کے افتتاح کا افتتاح کیا جس کے بعد کلینیکل سائیکالوجسٹ روبینہ قدوائی نے ڈاکٹر فیض احمد فیض کی نظم ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ پیش کی۔
انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی رکن اور ڈبلیو اے ایف، عورت فاؤنڈیشن اور ایچ آر سی پی کی بانی رکن محترمہ انیس ہارون نے پاکستان میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال پر خطاب کیا۔ انہوں نے لاپتا افراد، اقلیتوں کی جانب عدم برداشت، تشدد کے حالیہ واقعات اور ملک میں مجموعی اقتصادی غیر یقینی صورتحال سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
دماغی صحت عالمگیر انسانی حق ہے، برطانوی ماہر نفسیات
اس موقع پر برطانیہ سے آئے ہوئے فارنزک سائیکائٹرسٹ اور سائیکو اینالسٹ ڈاکٹر مظفر حسین نے دماغی صحت کو ایک عالمگیر انسانی حق قرار دیتے ہوئے موجودہ صورتحال کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا اور مینٹل ہیلتھ ایکٹ میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا۔
پہلی ٹرانس جینڈر طبیبہ ڈاکٹر سارہ گل اور پہلی وکیل ایڈوکیٹ نشا راؤ نے خطابات کے دوران اپنی ذاتی جدوجہد، مصائب اور کامیابیوں کا تذکرہ کیا۔
پی اے ایم ایچ کے جنرل سیکریٹری اور سروسز ہسپتال کے سابق ایم ایس ڈاکٹر اجمل مغل نے اپنی پریزنٹیشن بعنوان ’مجرموں کے انسانی حقوق‘ میں سینٹرل جیل میں بطور وزٹنگ سائیکائٹرسٹ اپنے تجربات بیان کیے۔
جناح اسپتال کے شعبہ بیہیویئرل سائنس کے سربراہ ڈاکٹر چونی لال نے دماغی صحت کے تناظر میں انٹرنیٹ کے استعمال اور متعلقہ سائبر کرائم قوانین کے بارے میں بات کی۔ سول اسپتال کراچی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر واشدیو امر نے بزرگوں کے حقوق اور ان کے دماغی صحت کے حقوق میں تفاوت اور نظر انداز کیے جانے پر گفتگو کی۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر فارس مغل نے خوف کی حیاتیات اور اس سے نمٹنے کے مختلف طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ماہر نفسیات محترمہ مدیحہ رانا نے بچپن میں ٹراما کے زندگی پر اثرات پر بات کی۔
اس موقع پر پروفیسر سید ہارون احمد کو انجمن کے قیام اور اس کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں پیٹرن چیف شیلڈ پیش کی گئی۔ پروگرام کا اختتام پر ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکریٹری ناصر مسعود بٹ نے شرکا کا شکریہ ادا کیا جن میں مختلف ڈاکٹرز، ماہر نفسیات، ماہرین نفسیات، پوسٹ گریجویٹ طلبا اور سول سوسائٹی کے قابل ذکر اراکین شامل تھے۔