پائنچہ

جمعرات 12 اکتوبر 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شلوار کا پائنچہ انسان کی زندگی میں جس قدر اہم کردار ادا کرتا ہے اس پر ماہرین نے آج تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ کسی کے محض پائنچے دیکھ کر اس کی شخصیت، معیشت اور مذہبیت کے بارے میں مکمل اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مردوں کے ہاں تو محض پائنچہ کی اونچائی نیچائی سے جنت دوزخ کا فیصلہ ہو سکتا ہے، ان کی کون سے نماز مقبول ہو گی ایک نظر میں معلوم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے مزید کسی کھوج کی ضرورت نہیں۔

مردوں نے طویل عرصہ بغیر پائنچہ والے لباس میں گزارا ہے۔ یہ تو حضرت ضیا رحمت اللہ علیہ کا کمال ہے کہ انھوں نے ایک دن قمیض شلوار کو مشرف بہ اسلام کیا اور عصا کے زور پر ملک کے طول و عرض میں رائج کر دیا۔ آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ اسلام کا شلوار اور اس کے پائنچہ سے کتنا گہرا تعلق ہے۔

رہی بات خواتین کی تو اس باب میں انھوں نے مردوں کے کان کاٹے ہیں۔ خواتین کے لباس میں پائنچے کو بھی وہی حیثیت حاصل ہے جو دوپٹے کو ہے۔ جس طرح دوپٹہ اوڑھنے کا انداز کسی خاتون کی شرافت، روایت اور نجابت کا ثبوت ہے، اسی طرح پائنچہ بھی اس کے فیشن اور سٹائل کا غماز ہے۔ 2005 میں جو زلزلہ آیا تھا اس کے ڈانڈے بھی خواتین کے پائنچہ کی اونچائی سے ملتے ہیں۔ یہ اونچائی ملک کی معیشت کی طرح گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، معیشت بلند تو پائنچہ بھی بلند۔

اس معاملے میں منطق کا کوئی دخل نہیں۔ دیکھا جائے تو منطق صرف بحث کے وقت کام آتی ہے اور اپنے کسی کام کے حق میں دلائل تلاش کرنے ہوں تو اس سے مدد لی جاتی ہے۔ لیکن فیشن انڈسٹری اس طرح کے چونچلوں میں پڑ گئی تو پیسے دینے کا کیا جواز رہ جائے گا۔ لوگ اگر ایک بار منطق سمجھ لیں تو ان کے ذہن سے خیال نکالنے کے لیے زیادہ بڑی منطق کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

 فیشن انڈسٹری نے برصغیر میں محض پائنچے کی چوڑائی سے 100  سال گزار لیے ہیں۔ کھلے پائنچے اور چھوٹی قمیض نے ملک میں دس سال حکمرانی کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں لڑکپن میں تھی۔ گو کہ یہ فیشن میری امی کے لڑکپن میں بھی آیا تھا لیکن انھوں نے مجھ پر پابندی لگا دی کہ کھلے پائنچے والی شلوار نہیں سلوانی، یہ بےحیائی ہے۔ میں لڑکپن میں تھی ۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ اس موضوع پر بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسا دلدل سے نکلنے کی کوشش کرنا یا بھنور میں تیراکی کرنا۔ خیر گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی کزن کے گھر گئی تو اس کے کھلے پائنچوں والا سوٹ مانگ کر پہنا۔ وہ جو احساس تھا، شاید ہی پھر کبھی مجھے نصیب ہوا ہو۔ آتشی گلابی سادہ قمیض اور کھلے کھلے پائنچوں والی پھول دار شلوار، میں تو سارا دن بکری کے شریر بچے کی طرح صحن میں دوڑتی بھاگتی اور چھلانگیں لگاتی رہی۔ ایک بار جب بزرگ خواتین کی نگران نگاہوں کی وجہ سے سیدھی طرح چل رہی تھی تو ایک پاؤں کا انگوٹھا کھلے پائنچے میں یوں پھنسا کہ میں منہ کے بل فرش پر گر پڑی ۔ وہ تو خدا کا شکر ہے جس نے ذوق ِحفظ ِزندگی ہر چیز کی فطرت میں رکھا ہے، میرے ہاتھوں نے مجھے بچایا۔ پھر ادراک ہوا کہ کھلے پائنچے حرام کیوں ہیں۔

جلد ہی فیشن بدل گیا۔ میری سب سہیلیوں نے نئے کپڑے سلوا لیے اور پرانے خدا جانے کہاں گم کر دیے۔ اب چھوٹی قمیض اور دھوتی شلوار کا وقت آ گیا۔ میری امی نے تو نام ہی سن کر پابندی لگا دی۔ امی کا خیال تھا کہ دھوتی  شلوار دشمنوں کی سازش ہے۔  اس طرح کے کپڑے صرف اور صرف بری لڑکیاں ہی پہنتی ہیں۔ اچھی لڑکیاں سادہ اور کھلے کپڑے پہنتی ہیں۔ اگر لمبی قمیض کا فیشن ہو تو چھوٹی پہننا شرافت ہے اور جب چھوٹی قمیض کے دن ہوں تو اچھی لڑکی کو لمبی قمیض پہننا چاہیے۔ مختصر یہ کہ لڑکی اپنے کپڑوں سے شرمندہ رہے اور کبھی نہ سوچے کہ وہ اچھی لگ رہی ہے ورنہ معاشرے کا نازک تانہ بانہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ بزرگوں نے کبھی اپنے بچوں کو اپنے ماضی کے بارے میں سچی بات نہیں بتائی۔ ہمارے بزرگ سندباد جہازی کی طرح ہیں جو اپنا بحری جہاز لے کر نامعلوم دنیاؤں کی تلاش میں نکلتا تھا۔ پھر کسی دور دراز جزیرے پر کچھ دن گزار کر واپس آتا تھا تو اپنے من سے جوڑ کر خوب حیرت انگیز کہانیاں سناتا تھا۔ کبھی کہتا میں ایک ایسے ملک میں گیا تھا جہاں ساحلوں پر ریت کے بجائے چھوٹے چھوٹے ہیرے تھے۔ کبھی کہتا کہ میں آگ کے جزیرے پر جا نکلا تھا، جہاں آگ سے بنے ہوئے انسان رہتے تھے۔ سندباد سوچتا ہو گا کہ کسی کو کیا پتا میں کہاں گیا تھا۔ بعد میں سائنس دان کیمرہ لے کر ہر جگہ گئے۔ حتیٰ کہ سمندروں کی گہرائی میں بھی ۔ لیکن سندباد کے جزیرے کہیں نہ ملے۔ ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں لوگ بہت شریف، حیا دار اور باپردہ تھے ۔ لیکن ملک میں اسلام کی نمود و نمائش سے پہلے کی بہت سی تصاویر سے معلوم ہوا کہ یہاں بار اور کلب تھے۔ لڑکیاں بغیر آستین کے شرٹ اور بیل باٹم جینز میں ساحل پر ٹہلا کرتی تھیں اور اپنے مرد دوستوں کے ہمراہ سگریٹ کے کش لگاتی تھیں۔ ساتھ ہی جب پائنچہ کھلے پن سے اکتایا تو تنگئ جامہ کا دور آ گیا۔ خود ہماری امی جان کے پائنچے اتنے تنگ تھے کہ بٹن لگانے پڑتے تھے لیکن جب ہم نے تنگ پائنچے پر اصرار کیا تو امی جان نے اس کو غیر متوازن طرزِ عمل قرار دے کر حرام کر دیا۔ اب احساس ہوتا ہے کہ جو فیشن کے نام پر کھلے اور تنگ کپڑے بناتے ہیں اصل میں انھوں نے ہی غریبوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جبکہ امیروں کے لیے اس میں آگے بڑھنے اور کھل کھیلنے کے موقعے فراہم کیے ہیں ۔ اس کا اسلام سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ تمام نیک بزرگوں کا ماضی برائی کو انتہائی قریب سے دیکھتے ہوئے گزرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ برائی کے تمام ذائقے اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے خیال میں گو کہ برائی کا ذائقہ بھلا ہے لیکن اس سے ہیضہ ضرور ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے ایسی چیزیں نہ چکھی جائیں۔ انھوں نے ہمیں نصیحت کرنے کے لیے کتنے ہی دھکے کھائے۔ ہائے بے چارے بزرگ۔

اب پائنچے پر کسی کا دھیان نہیں۔ کیونکہ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ اس کا مقصد محض ٹانگ اڑانا ہے۔ اس لیے جیسے چاہے کپڑے پہنو۔ بس دھیان رہے کہ اس پر برینڈ کا ٹیگ سامنے اور واضح طور پر لگا ہو کہ اب یہی فیشن ہے۔ منطق نے پائنچہ کا تیا پانچا کر دیا ہے۔ روپے کے بہاؤ نے زیادہ تیز راہ نکالی ہے۔ ایک فضول اور بد رنگ شے جو کوئی مفت بھی نہ لے، برینڈ کے ٹھپے کے ساتھ کروڑوں کی بکتی ہے۔

 حال ہی میں پاکستان کے ایک فیشن برانڈ نے دنیا کی توجہ حاصل کی۔ بڑے بڑے اداکاروں جیسے کرن جوہر اور گلوکاروں جیسے جسٹن بیبر وغیرہ نے پہلے سے بکنگ کروا کر خریداری شروع کر دی ہے۔ اگر آپ بھی فیشن کا شوق رکھتے ہیں تو جان لیجیے کہ مردوں کے لیے ایک کھلی اور ڈھلکی ہوئی قمیض ، جس کا رنگ ہلکا گلابی ہے اور دور دور ریشم سے ایک ایک پھول دار بوٹی کاڑھی گئی ہے اور اوپر ستارے لگائے ہوئے ہیں، 5 لاکھ روپے میں دستیاب نہیں ہے، بلکہ پہلے بکنگ ہوگی اور پھر باری باری یہ نادر و نایاب نمونہ آپ کو ملے گا۔۔۔ پھر آپ پہن کر خوشیاں منا سکتے ہیں۔

پاکستانی آپ کے لباس کو دیکھ کر ہنسیں گے۔ ہماری امی سخت برا مانیں گی۔ مذہبی گروہ اس لباس کو حرام قرار دیں گے لیکن جاننے والے ضرور متاثر ہوں گے، جو آپ کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔یہ وہ لباس ہیں جو دوسری بار پہنے بھی نہیں جا سکتے۔ خدا جانتا ہے کہ نواب لوگ قیام پاکستان سے پہلے کیسے روز نئے نئے کپڑے پہنتے تھے جبکہ ابھی صنعتی انقلاب بھی نہ آیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو پاکستان کا کہ اس نے دنیا کے استعمال شدہ کپڑے ٹھکانے لگانے کے لیے بھی خاصی آبادی پیدا کر لی ہے ورنہ اسی کوڑے کے بوجھ سے یہ زمین سمندر میں غرق ہو جاتی۔ کبھی کبھی دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش بھارت کے بجائے نیدرلینڈز کا کوئی ملک ہمارا ہمسایہ ہوتا تو ہم کوڑا کرکٹ کی ہی تجارت کر لیتے جو ہمارے ہاں کثرت سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ ان کو اپنی ری سائیکلنگ کی فیکٹریاں چلانے کے لیے ہر روز ہزاروں ٹن کوڑا درکار ہوتا ہے۔ میں نے تو اپنے تمام اوٹ پٹانگ پائنچوں والے کپڑے اکھٹے کر رکھے ہیں، جب نقشہ بدلے گا تو ان کی طرف لڑھکا دوں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp