1950 اور 1960 کی دہائیوں میں امریکا کے شہروں نیو یارک اور لاس اینجلس میں بڑھتی ہوئی اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی نے امریکی معاشرے اور حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1966 میں شدید اسموگ سے پورا نیو یارک شہر دھندلا گیا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس وقت شہری انتظامیہ کی اولین ترجیحات میں ہاؤسنگ، جرائم اور تعلیم کے علاوہ نیو یارک شہر کو آلودگی سے پاک رکھنے کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ کلین ایئر ایکٹ 1963 کے تحت شہروں سے آلودگی کے خاتمے کو یقنی بنانے کا کام شروع ہوا۔
1970 میں ایجنسی برائے تحفظِ ماحولیات قائم کی گئی، جو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے آلودگی کا باعث بننے والی فیکٹریوں، گاڑیوں، ہوائی اور بحری جہازوں وغیرہ کو پابند کرتی ہے کہ وہ امریکی قواعد پر عمل درآمد یقینی بنائیں ورنہ بھاری جرمانوں کے لیے تیار رہیں۔
نجی اور کمرشل گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھی ان قواعد پر سختی سے عمل درآمد کروایا گیا اور ان میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کیمیائی ساخت کو بھی قواعد و قوانین کے دائرے میں لایا گیا۔
وہیکل ٹیسٹنگ کا پروگرام متعارف کرایا گیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان تمام اقدامات سے آلودگی کم کرنے میں خاطرخواہ مدد ملی۔ اس کے بعد ایئر کوالٹی انڈیکس کے ذریعے مانیٹرنگ نظام ترتیب دیا گیا جس سے امریکا کے شہروں میں آلودگی کی صورت حال پر نظر رکھی جاتی ہے۔
آج بھی امریکا، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے شہروں میں گاہے بگاہے ایسے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں کہ لوگ گاڑیوں کا استعمال کم کریں۔ بہترین ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شہروں کی طرف آنے والی ٹریفک کے لیے سڑکوں کے درمیان ایک لائن بنائی گئی جس میں صرف ایسی گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں جن میں ڈرائیور کے ساتھ کم از کم 2 افراد سوار ہوں۔
کارسوار نواحی علاقوں میں پارکنگ ایریا سے شہر کے مختلف حصوں میں جانے والے مسافروں کو لفٹ دیتے ہیں تاکہ وہ نارمل لائنز میں رش سے بچتے ہوئے جلد شہر میں داخل ہوجائیں اور آلودگی بھی کم پھیلے۔
ان سب اقدامات کے سبب 1970 سے اب تک امریکا میں تقریباً 65 فیصد فضائی آلودگی کم ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ اربوں ڈالر کی بچت بھی کی جا چکی ہے۔
حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا جس میں پاکستان، بھارت، بنگلادیش اور نیپال شامل ہیں جہاں دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ مقیم ہے اور یہ ممالک آلودگی کا مرکز بن گئے ہیں۔
بنگلا دیش دُنیا کا سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا ملک قرار دیا گیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے نئی دہلی کے ساتھ لاہور بھی دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی پھیلانے والا شہر بن چکا ہے۔
شکاگو یونیورسٹی کی سالانہ تحقیقیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہروں لاہور، قصور، شیخوپورہ اور پشاور میں رہنے والے افراد کی اوسط عمر میں 4 سال کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ان ملکوں میں آلودگی کی وجہ سے لوگ سانس، دل اور دماغی امراض کے ساتھ دائمی اضطراب، ذہنی دباؤ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اب کراچی بھی آہستہ آہستہ فضائی آلودگی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔
نومبر 2021 میں لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس 680 ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد حکومت نے لاہور کے نواحی علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے پر پابندی لگا دی اگرچہ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں مگر آج بھی ان علاقوں میں باقیات کو آگ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
اب اسموگ کے مہینوں میں لاہور میں سکول کئی کئی روز کے لیے بند کردیے جاتے ہیں۔ پنجاب کی نگراں حکومت نے بدھ کے روز تمام تعلیمی ادارے، مارکیٹس اور دیگر نجی اور سرکاری ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
فضائی آلودگی اور اسموگ میں 40 فی صد حصہ شہر میں چلنے والی گاڑیوں کا ہے مگر شہر کے اندر اور اطراف میں قائم فیکٹریاں سب سے زیادہ زہریلا دھواں خارج کرتی ہیں جن پر حکومتی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ داروغہ والا، محمود بوٹی، شاہدرہ، شیخوپورہ روڈ، فیروزپور روڈ پر واقع انڈسٹریل زون کی فیکٹریوں میں ٹائروں پر مخصوص تیل چھڑک کر بھٹیاں چلائی جاتی ہیں تاکہ آگ زیادہ دیر تک لگی رہے۔
انڈسٹریل زون کے قریبی علاقوں کے رہائشی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ دھویں کی وجہ سے رہائشی بالخصوص بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
اسموگ کے خاتمے اور فضائی آلودگی کم کرنے میں حکومتی اقدامات بالکل ناکافی نظر آتے ہیں۔ نیویارک کی طرح پاکستان میں بھی سخت قوانین بنا کر ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ گاڑیوں کی ہر 6 ماہ بعد انسپیکشن، فیکٹریوں کی شہر سے باہر منتقلی اوردھویں کا مناسب بندوبست، لاہور، کراچی، پشاور جیسے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ، صفائی کا بہتر نظام، آلودگی کنٹرول کرنے کے انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے )کو زیادہ اختیارات دینے وغیرہ جیسے اقدامات حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل کیے بغیرفضائی آلودگی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
اس کے علاوہ عوام میں آگاہی پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ملک کے بیشتر لوگ جھاڑیوں اور کچرے کو آگ لگانا اور دھواں پھیلانے کو صحت کے لیے بالکل مضر نہیں سمجھتے۔
ماحولیات کا مضمون نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ اساتذہ میں بھی آگاہی بہت ضروری ہے۔ بلکہ سب سے پہلے حکومتی وزرا اور افسران کی ٹریننگ بھی کی جائے۔ عوام کو صحت مند رکھنے میں اب حکومتی سستی نہیں چلے گی۔