سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کوغیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اپیلیٹ ٹریبونل کو بھیج دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کے خلاف نیپرا اور ڈسکوز کی درخواستوں پر سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ آئینی و قانونی طور پر قابل عمل نہیں۔
معاملہ نیپرا ایپلٹ ٹریبونل کو بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل میں صارف کمپنیاں 15 دن میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف اپیلیں دائر کریں، اور نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل 10 دن میں اپیلیں مقرر کرے۔ عدالت عظمی نے نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل کو جلد از جلد قانونی میعاد کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے وکیل منور سلام کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایک ہزار سے زائد اپیلیں ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف دائر ہوئی ہیں، آپ دلائل میں 1090 نمبر درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں، آپ کو چاہیے تھا کورٹ اسٹاف کو دلائل کے بارے پہلے بتا دیتے، ایک ہزار سے زائد درخواستوں سے اس درخواست کا نکالنا دوران کیس آسان نہیں، پروفیشنل ازم تو جیسے ختم ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کہ کیا کسی کو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض تو نہیں، جس کے بعد انہوں نے کہا کہ کسی کو اعتراض نہیں تو میرٹ پر دلائل دیں، اپیلوں میں استدعا بھی نہیں مختلف استدعائیں کی گئی ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیز کی جانب سے وکیل منور اسلام جبکہ نیپرا کی وکالت عمر اسلم کریں گے۔ عدالت کی معاونت اور فیڈریشن کی نمائندگی اٹارنی جنرل آفس کرے گا۔
بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے وکیل منور سلام نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے معاملہ یہ تھا کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے اور یہ چارج کیوں ہوتی ہے، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج پر مشتمل بینچ نے اپنے اختیار سے باہر جا کر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ بجلی کے 500 یونٹ سے زائد استعمال پر اضافی چارجز وصول کیے جائیں۔
وکیل منور سلام کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے بنیادی آئینی ڈھانچے پر انحصار کرنے کے باوجود اٹارنی جنرل کو بغیر نوٹس فیصلہ دیا، لاہور ہائیکورٹ میں اسی عرصے میں ایک اور جج نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق درخواستیں خارج کی تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے درخواست میں تو یہ استدعا کی ہی نہیں گئی تو فیصلہ کیسے دیا گیا، ہائیکورٹ کے فیصلے میں 500 یونٹ کی حد کس بنیاد پر مقرر کی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
جس پر منور سلام بولے؛ لاہور ہائیکورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور اس کا اطلاق غیر قانونی قرار دیا، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا کہ نیپرا کا فورم مکمل نا ہو تو وہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سمیت کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ صارف کی گنجائش سے زیادہ ایڈیشنل چارجز بل میں شامل نہیں کیے جا سکتے۔
چیف جسٹس بولے؛ اس طرح تو آپ کہیں گے کہ میری بجلی کا بل دینے کی کوئی گنجائش ہی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا ہائیکورٹ نیپرا کا اختیار استعمال کر سکتا ہے؟ ہائیکورٹ میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کو ثابت نہ کیا گیا تو میرٹ پر دلائل نہیں سنیں گے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ نجی کمپنیاں بتائیں کہ انہوں نے متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کے بجائے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیوں کیا، کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بریک کے بعد عدالت کو آگاہ کریں۔