مدھیا پردیش میں ڈائنوسار کے انڈے 

منگل 3 جنوری 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دھر میں زمین پر گھومنے والے عظیم الجثہ جانوروں اور سمندری مخلوقات کے علاوہ کروڑوں سال پہلے اگنے والے پودوں کے فوسل بکھرے پڑے ہیں۔

حال ہی میں مدھیہ پردیش کے ایکو ٹورزم بورڈ کی ایما پر ملک بھر سے معروف سائنسدان یہاں پہنچے اور انھوں نے پورے علاقے کی تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی ہے۔

ایکو ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر سمیتا راجورا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس رپورٹ کو مرتب کر کے یونیسکو کو بھیجا جائے گا تاکہ باگھ اور دھر کے بڑے علاقے کو ’ایکو ہیریٹیج‘ کا درجہ مل سکے اور اس علاقے کے ورثے محفوظ کیا جا سکے، اس کے ساتھ تحقیق کو بھی آگے بڑھایا جا سکے۔

‘سوسائٹی آف ارتھ سائنسز’ کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران زمین پر اور نیچے جو کچھ ہو رہا تھا اس کے شواہد ایک بڑے علاقے میں بکھرے ہوئے ہیں، یہ وہی وقت ہے جب مبینہ طور پر ڈائنوسار زمین پر گھوما کرتے تھے۔

ماہرین ارضیات اور ارتھ سائنس سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈائنوسار کی مختلف نسلیں مختلف اوقات میں پیدا ہوئیں اور ختم ہوگئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس علاقے میں نہ صرف ڈائنوسار بلکہ اس سے بھی بڑے ‘ٹائٹانوسارس’ بھی فوسلز کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔

دھر کے علاقے میں تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ کبھی شدید زلزلے سے زمین تباہ ہوئی تو کبھی آتش فشاں کا پھٹنا اس کی تباہی کی وجہ بنا۔ پھر سمندر کا پانی جب زمین پر آیا تو ایک بار پھر تباہی ہوئی اور انواع و اقسام کے جاندار کی نسلیں معدوم ہو گئیں۔

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ پیلیونٹولوجی یا قدیم حیات کے پروفیسر گنٹوپلی وی پرساد نے بی بی سی کو بتایا: ’دکن کے سطح مرتفع کا سلسلہ شدید آتش فشاں کے پھٹنے سے نکلنے والے لاوے کی وجہ سے بنا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ کبھی زلزلے، کبھی آتش فشاں اور کبھی سمندر کے پانی نے زمین پر زندگی کا خاتمہ کیا، جس کا ثبوت کناروں کی چٹانوں اور زمین کی پرت میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تباہی در تباہی کے باوجود زمین پر زندگی کا آغاز ہوتا رہا۔‘

پرساد کا کہنا ہے کہ دھر کے علاوہ اس کے شواہد وادی نرمدا کے کنارے پر موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی نرمدا کے ایک ہزار کلومیٹر کے دائرے میں ڈائنوسار سمیت کئی معدوم ہونے والی مخلوقات کے فوسلز پھیلے ہوئے ہیں۔ 

مدھیہ پردیش کے ساتھ بھی کبھی سمندر تھا

اب تک پوری دنیا میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈائنوسار کی تمام اقسام کی زندگی کا دورانیہ دو سے تین لاکھ سال ہے۔ اس دور میں دوسری مخلوقات بھی ہوئیں۔ مدھیہ پردیش کے اس علاقے میں ڈائنوسار کے ساتھ ساتھ دوسرے جانداروں کے فوسل بھی بکھرے پڑے ہیں۔ کئی سمندری مخلوقات کے فوسلز کی دریافت سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ یہ علاقہ کبھی گہرے سمندر کا حصہ تھا۔

دھر ضلعے میں زمینی سطح پر 300 انڈوں کے فوسل اور ڈائنوسار کی مختلف اقسام کے 30 گھونسلے ملے ہیں۔ اب تک سائنسدانوں نے کبھی بھی اس علاقے میں کھدائی کا کام منصوبہ بند طریقے سے نہیں کیا ہے۔

دھر میں تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ابھی تک صرف زمین کی سطح جو فوسل ملے ہیں وہ کروڑوں سال کی معلومات دے رہے ہیں۔ اگر منظم طریقے سے تحقیق کی جائے تو زمین کے بارے میں اور بھی بہت سے راز کھل سکتے ہیں۔

دھر میں صورتحال کچھ یوں ہے کہ یہ فوسلز اپنے ہی کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں یا چرواہوں کو ملتے رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp