سابق وفاقی وزیر اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مراد سعید نے چیف جسٹس آف پاکستان سے جعلی مقدمات کی آڑ میں اہلخانہ کو ہراساں کرنے اور نشانہ انتقام بنانے کا فوری نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے خط لکھا ہے۔ مراد سعید نے لکھا کہ اپنے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کی خاطر سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال اور صدر مملکت کو بھی متعدد خطوط ارسال کیے جنہیں بدقسمتی سے نظر انداز کر دیا گیا۔
خط کے متن کے مطابق مراد سعید نے لکھا کہ وہ ریاستِ پاکستان کا ایک ذمہ داراور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہونے کے ساتھ سابق وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ لیکن اپریل 2022 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ان کے خلاف جعلی اور بے بنیاد ایف آئی آرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے، جن میں دہشت گردی اور غداری جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ جولائی 2022 میں مالاکنڈ میں سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کی طرف حکومت وقت اور ریاستی اداروں کو توجہ دلانے کے لیے آواز بلند کی، لیکن خیبر پختونخوا میں امن کی بحالی میں کرادر ادا کرنے پر ان کو اور ان کے خاندان کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
انہون نے مزید لکھا کہ اگست 2022 میں ان کی غیر موجودگی میں نامعلوم مسلح افراد نے رات کے اندھیرے میں ان کے گھر پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو پیچھا کرنے پر بآسانی ریڈ زون میں فرار ہو گئ۔ چند روز قبل 14 اکتوبر کو خیبرپختونخوا پولیس اور چند نامعلوم افراد نے پشاور میں ان کے رشتہ داروں کے گھر پر غیر قانونی طور پر چھاپہ مارا۔
’پولیس کی جانب سے میرے اہلخانہ کو تضحیک اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا اور گھر کا فرنیچر اور دیگر قیمتی اشیاء توڑ دی گئیں۔‘
’میری اہلیہ اور رشتہ داروں کو بغیر کسی مقدمے اور ایف آئی آر کے بلاجواز انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔‘
انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا کہ 9 مئی کے بعد سے پارٹی کے دیگر قائدین کی طرح ان پر بھی بغیر کسی ثبوت کے انتشار اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہونے کے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ وہ عدالت عظمیٰ کے روبرو جان کو لاحق خطرات اور قتل کے منصوبے کے خدشات کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔
ان کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال سے تمام تر ریاستی مشینری کو ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے سیاسی انتقام کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزارش ہے کہ بیان کردہ خدشات کے پیش نظر فوری طور پر ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کیے جائیں۔