میرا پہلا صحافتی پڑاؤ

پیر 30 اکتوبر 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اکتوبر میں رُت اپنے رنگ بدلتی ہے اور موسموں کے بدلنے سے مزاج بھی بدلتے ہیں۔ نہیں بدلتیں تو بس یادیں ۔ اکتوبر سے میرا بہت کچھ جُڑا ہوا ہے۔ جُڑا بھی ہے اور بچھڑا بھی بہت کچھ ہے۔

سب سے پہلے تو اکتوبر کے مہینے میں ہی اپنی اس جہانِ رنگ و بو میں آمد ہوئی۔ پتا نہیں کیوں میں سال گرہ نہیں مناتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اکثر دیہاتی اس دنیا میں اپنی آمد و رفت کا کوئی خاص حساب نہیں رکھتے۔ گویا یہاں آنا یا اُس جہان جانا معمول کی باتیں ہیں۔

بہرحال اگر آپ برا نہ محسوس کریں تو سال گرہ منانے کو ہم دیسی لوگ چونچلے ہی تصور کرتے ہیں۔ بات اکتوبر کی ہو رہی تھی تو یاد آیا سیالکوٹ میں نوے کی دہائی میں پورے ملک کی طرح بہت سے طالب علم راہنما سیاست کی نذ ہوئے۔ ان میں عزیز دوست جاوید اقبال بٹ کا قتل بھی نوے کی دہائی کے اوائل میں ایک دکھ کا احساس دے گیا۔

اس واقعہ سے چند روز پہلے ویسے ہی دلی طور ایک صدمے سے گزرنا ہوا۔ اوپر سے ایک دلیر دوست جاوید بٹ کی ناگہانی موت تکلیف اور اذیت سے دو چار کر گئی۔ ابھی چند سال گزرے ہیں پھر اُسی دلِ برباد سی کیفیت سے اکتوبر میں گزرنا پڑا۔

بہرحال جب تک زندگی ہے رستوں کی اونچ نیچ تو چلتی رہے گی۔ خوشی اور غم زندگی کا لازمہ ہے۔ زندگی مسلسل امتحان ہے۔ آپ ایک مرحلہ طے کرتے ہیں تو ایک دوسرا پڑاؤ آپ کا امتحان لینے کا منتظر ہوتا ہے۔

وہ بھی 1995 کا اکتوبر ہی تھا جب اسلام آباد سے اجنبی شہر میں ایک اردو روزنامہ کے سٹاف رپورٹر کے طور اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں روزنامہ”خبریں” کا دفتر ستارہ مارکیٹ میں ہوتا تھا۔ صبح 11 بجے چیف رپورٹر فیاض ولانہ رپورٹرز کی میٹنگ لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں کی بھرپور اُٹھان کا دور تھا۔ کارکنوں میں بھی کچھ کر گزرنے کا جزبہ موجزن لگتا تھا۔

عامر الیاس رانا، حامد حبیب، مشتاق منہاس، عرفان ڈار، ناصر راجہ، صدیق ساجد، نیّر راوت، عزیز ملک، عارف رانا سب ہی اچھے رپورٹر تھے۔

میرا خیال یہ تھا کہ کسی سینئر رپورٹر کے ساتھ کام کروں گا اور پھر سیکھتے سیکھتے کام چل نکلے گا۔ مگر ولانہ صاحب نے کُھلے پانی میں چھوڑ دیا کہ بھئی خود ہی تیراکی سیکھو اور کنارے آ لگو۔ وہ کہتے تھے کسی دفتر میں جائیں۔ لوگوں سے ملو۔ بات چیت کرو۔ تعلقات بناؤ۔ ہر جگہ گروپ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حوالے سے وہ خبریں دیں گے۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیسے منہ اٹھا کر کسی دفتر میں کیسے گُھس جاؤں۔

اس زمانے میں سات افسران ترقی پا کر وفاقی سیکریٹری بنے۔ جن میں عدنان سمیع خان کے والد ارشد سمیع خان بھی تھے۔ سب سے پہلے وہ خبر میں ہی لے کر آیا بعد ازاں رات گئے شاید وہ خبر ویسے بھی آگئی۔ اگلی صبح وہ خبر میرے نام سے تو نہ لگی البتّہ بائی لائن سٹاف رپورٹر کی لگی۔

پہلا آدمی جس نے میری انگلی پکڑی وہ عرفان ڈار مرحوم تھے۔ وہ میڈیکل کی بیٹ کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کبھار مجھے ساتھ لے جانا شروع کر دیا۔ انھی دنوں اٹک سے کچھ کسان آئے تو ان کی بات سُن کر خبر لگانے کی ڈیوٹی لگی۔ کسی سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے ان کی زرعی زمینیں متاثر ہو رہی تھیں۔

ایک دن ایک ڈاکٹر آئے جو کھنہّ پُل کے قریب کلینک چلاتے تھے اور کسی عطائی کے بارے میں خبر کرانا چاہتے تھے۔ تعارف ہوا تو پتا چلا کہ ڈاکٹر شاہد کا تعلق بھی سیال کوٹ سے ہے۔ لہذا تعلق میں قربت آگئی۔ ڈاکٹر صاحب سے آج تک تعلق قائم ہے۔ ان کی خبر بھی کر دی۔

میں نے ماہانہ 1500 تنخواہ کے حساب سے خود ہی طے کر لیا کہ روزانہ صرف پچاس روپے خرچ کروں گا۔ گو کہ پہلی تنخواہ میں نے لی ہی نہیں کیوں کہ میرے صحافتی سفر کا انجام دوسرا مہینے کا اختتام دیکھ ہی نہیں سکا۔

ستارہ مارکیٹ دفتر سے نکلتا تو ہلکی سردی کا احساس ہوتا۔ سٹاپ پر کھڑا ہوتا تو ریڑھی سے گرم مونگ پھلی لیتا۔ تھوڑی دیر تک ویگن آ جاتی تو کراچی کمپنی روانہ ہو جاتا۔

منیر وڑائچ کے فلیٹ میں بن بلائے مہمان کے طور رہے جاہ رہا تھا۔ اب وہ پوچھتے تو نہیں تھے کہ بھئی کب جا رہے ہو؟

خود ہی مجھے محسوس ہوتا کہ یہاں سے بھی جانا ہی ہوگا۔ کراچی کمپنی ان دنوں کابلی افغان مہاجرین کی آماج گاہ تھی۔ صبح صبح افغانی لڑکے باکسنگ کی پریکٹس کرتے۔ عبایا پہنے یا ماڈرن افغان خواتین ہر طرف نظر آتیں۔ اتوار بازار میں ہر طرف ان کی چہل پہل ہوتی۔ تندوروں پر لمبی لمبی افغانی روٹیاں لٹکتی نظر آتیں۔ سوپ اور گرما گرم چپس بیچتے افغان لڑکے ہر طرف نظر آتے۔

کراچی کمپنی کے فلیٹس سے صبح سویرے گرما گرم تیار ہوتے ناشتے کی خوش بُو اور سرِ شام پکتے کھانے کی باس بھوک اور بڑھا دیتی۔ پھر کبھی صبح کسی افغانی سے کابلی پلاؤ لے کے یا ڈھابے سے نان نہاری سے ناشتہ کرتے۔ ایک دفعہ گاؤں گیا تو والد صاحب سخت سُست سنانے لگے۔ یہ کیا کام ہے جو تو کرنا شروع ہوگیا ہے۔

ان کے نزدیک یہ کوئی کام نہیں تھا جو میں کر رہا تھا۔ شاید وہ سمجھتے تھے ملک کا سب سے بڑا افسر تھانے دار یا تحصیل دار ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے اے سی ، ڈی سی بنانے کا خواب دیکھتے ہوں۔ وہ مجھے کوئی ایسی ہی چیز بنانا چاہتے ہوں گے۔ عموماً والدین اپنے بچوں کے متعلق ایسے ہی خواب دیکھتے ہیں۔ اور ان کا حق بھی ہوتا ہے۔

ادھر اسلام آباد میں بھی حالات کوئی بہت ساز گار نہیں تھے۔ میں خود بھی اپنے گھر اور گھر والوں کو بہت یاد کرتا۔ یہاں تک کہ سیال کوٹ نمبر والی کوئی گاڑی بھی نظر آتی تو اپنی اپنی لگتی۔ انھی دنوں میری ملاقات یوٹیلیٹی سٹورز کے کنسلٹنٹ اور وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشیر ارشاد راؤ سے بھی رہی۔ جنرل ضیاء کے سیاہ دور میں وہ “الفتح” کے ایڈیٹر تھے۔ اپنی آزادانہ صحافت کی پاداش میں انھوں نے مارشل لاء دور میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

جب میں نے انھیں بتایا کہ میں اخبار کی نوکری چھوڑ کر جارہا ہوں تو انھوں نے مجھے کہا کہ میں آپ کو سیال کوٹ میں اے پی پی کا نمائندہ بنوا دیتا ہوں۔ میں نے سوچا سمندر سے نکل کر میں ندی میں کیوں رہوں۔

مجھے یاد ہے کہ آب پارہ مارکیٹ کے پہلو میں جہاں اتوار بازار لگتا ہے وہاں ایک کمیونٹی سنٹر تھا جہاں ایک سٹیج ڈرامہ بھی دیکھا۔ اب ایکٹر اور ڈرامے کا تھیم تو یاد نہیں مگر انور رفیع کا ان دنوں مشہور گانا “جانو سُن ذرا” ڈرامے کے دوران گایا گیا۔

میں سمجھتا ہوں اگر میں اخبار میں اس وقت کام جاری رکھتا تو کب کا نامور صحافی بن چُکا ہوتا یا زندگی کسی اور راہ پر چل رہی ہوتی۔ میرا اکتوبر میں شروع ہونے والے پہلا صحافتی سفر نومبر میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ عملی طور پر تو صحافت سے الگ ہوگیا مگر صحافت مجھ سے جدا نہ ہوئی۔ دن میں تین تین اخبار پڑھے بغیر لگتا تھا جیسے اخبار پڑھا ہی نہ ہو۔ وقتی وقفہ گو طویل تھا مگر اگلا پڑاو لاہور کا ایک انگریزی اخبار بنا۔ جس کی کہانی پھر سہی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp