اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر سے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر ہزاروں کی تعداد میں بارودی مشن سے بمباری کی ہے، فلسطینی حکام کی طرف سے انکلیو میں جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 24 اکتوبر تک 12 ہزار ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد گرایا جا چکا ہے۔
غزہ کے میڈیا آفس نے اس غزہ پر اس حالیہ اسرائیلی بمباری 6 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکہ کی طرف سے گرائے گئے پہلے ایٹم بم کی طاقت کے برابر قرار دیا ہے۔ ’7 سے 24 اکتوبر تک غزہ کی پٹی کے فی مربع کلومیٹر پر 33 ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا جاچکا ہے۔‘
الجزیرہ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے اس انکشاف پر مبنی پوسٹ پر صارفین نے اسے انسانیت کیخلاف جرائم اور ’ناقابل معافی اور ناقابل فراموش‘ واقعات سے تعبیر کیا ہے، جسے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے مگر عالمی انصاف کے دوہرے معیار کی پیروی میں خاموش ہے۔
انسٹا صارف ریبالفو نے مہذب دنیا کی دوغلی پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے برترین نسل کشی قرار دیا۔’یہ بدترین نسل کشی کیوں ہے؟ کیونکہ اس میں قیاس کی گئی مہذب دنیا ملوث ہے، مغرب بے نقاب ہوچکا ہے۔
’بیکنگ نومیڈ‘ نامی ایک صارف نے اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے، غیر قانونی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے کتنی تابکاری، کتنے ٹن دھماکہ خیز مواد کے استعمال کے بعد ہوا، مٹی اور جو کچھ بھی بچا ہوا پانی آلودہ ہوا ہے اس کا کون جوابدہ ہے۔
انہوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے اس بارودی عمل کو جین آکسائیڈ (gen-oxide) کا نام دیا ہے۔ ’اسرائیلی بمباری نے ہیروشیما کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب یہ مشترکہ طور پر ہیروشیما اور ناگاسا کے بم دھماکوں کے ہم پلہ ہونے کے راستے پر ہے، یہ ’جین آکسائیڈ‘ ہے۔۔۔ یہ سب غیر قانونی ہے۔‘
جہاں ایک طرف صارفین نے اس انکشاف کو تسلیم کرتے ہوئے تبصرے کیئے ہیں وہیں چند ایک نے اپنی اس پوسٹ پر اپنی ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا ہے، رولا روز تھنڈر کلاؤڈ نے لکھا ہے کہ انہیں ایک ایشیائی کے طور پر مایوسی ہوئی کہ اس اکاؤںٹ نے توجہ حاصل کرنے کے لیے فوکوشیما نیوکلیئر تباہی کا مشرق وسطٰی میں جاری جنگ سے موازنہ کیا ہے۔
’دھماکہ خیز مواد کی مقدار سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن دونوں واقعات بالکل مختلف ہیں جبکہ صرف یہ حصہ (مقدار والا) مماثلت رکھتا ہے، براہ کرم دوسرے ملک کے دکھ کو اپنی تجویز کی حمایت کے لیے استعمال نہ کریں، میں فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہوں، لیکن اس نوعیت کا موازنہ کوئی زبردست طریقہ نہیں ہے۔۔‘
ایک اور انسٹا صارف کمی ایس کے نے بھی اس موازنہ کی تائید سے معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ مدلل موقف کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔ ’نیوکلیئر بم اسرائیل کی جانب سے سے استعمال کیے گئے بموں سے کہیں زیادہ جان لیوا ہے، اور تصویریں بھی مختلف زاویے سے منتخب کی گئی ہیں تاکہ دونوں دھماکوں میں مماثلت نظر آئے۔‘