نگران وفاقی حکومت کے احکامات ملک بھر میں غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والے پیٹرول اور ڈیزل سمیت دیگر اشیا پر پابندی عائد کی گئی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کریک ڈاؤن کا عمل شروع کر دیا گیا تھا تاہم اس دوران ملک بھر میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ جہاں بند ہو گئی وہیں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اب بھی پابندی کے باوجود ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کھلے عام فروخت ہو رہا ہے۔
شہر کے مختلف علاقے جن میں اسپنی روڈ، بروری روڈ، مغربی بائی پاس، ایئر پورٹ روڈ، سریاب روڈ، نواں کلی اور سرکی روڈ سمیت کئی اہم علاقوں میں منی پیٹرول پمپس کی بھرمار ہے جہاں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل فروخت کیا جارہا ہے۔
200 سے 250 منی پیٹرول پمپس
کوئٹہ میں منی پیٹرول کے کاروبار چلانے والے شخص نے وی نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر میں اب بھی ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کا کاروبار روز و شور سے جاری ہے۔ شہر میں اس وقت بھی 200 سے 250 منی پیٹرول پمپس کام کر رہے ہیں جو روازنہ کی بنیاد پر 50 سے 100 لیٹر ایرانی پیٹرول فروخت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر کے نواحی علاقوں میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سرحدی علاقوں سے مختلف گاڑیوں میں کوئٹہ لایا جارہا ہے جہاں شہر ہے نواحی علاقوں میں موجود اسٹورز میں اسے محفوظ کیا جاتا ہے بعد ازاں رات یا صبح کے اوقات میں منی پیٹرول پمپ مالکان اسے خرید کر دکانوں پر فروخت کرتے ہیں۔
ایرانی پیٹرول 180 سے 160 روپے فی لیٹر
انہوں نے بتایا کہ شہر میں اس وقت ایرانی پیٹرول 180 سے 160 روپے فی لیٹر کے درمیان میں فروخت ہو رہا ہے اور اس کی مانگ میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ ایرانی اور پاکستانی پیٹرول میں 100 روپے سے زائد کا فرق ہے۔ ضلعی انتظامیہ کارروائیاں تو کر رہی ہیں لیکن ابھی تک کوئٹہ میں کاروبار جاری ہے۔
مزید پڑھیں
روزانہ کی بیناد پر ایرانی پیٹرول کو استعمال کرنے والے کوئٹہ کے باسی عمران غوری نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب سے پاکستانی پیٹرول کی قیمت 200 روپے سے زیادہ ہوئی ہے تب سے موٹر سائیکل میں ایرانی پیٹرول ڈلوانا شروع کیا ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ایرانی پیٹرول گھر سے نکلتے ہی بآسانی دستیاب ہوتا ہے اور دوسرا اس کی قیمت پاکستانی پیٹرول سے 100 روپے کم ہے جو جیب پر انتہائی ہلکا پڑھاتا ہے۔
ایرانی پیٹرول کی درآمد کو قانونی راستہ دینا چاہیے
عمران غوری نے کہا کہ حکومت کو اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے مگر ایرانی پیٹرول کی درآمد کو قانونی راستہ دینا چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ اگر ایرانی پیٹرول بلوچستان کی حد تک قانونی طور طریقوں سے آئے تو اس کی قیمت 150 روپے سے زیادہ نہیں ہوگی اور لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع بھی ملیں گے۔
75 منی پیٹرول پمپس سیل
اس معاملہ پر کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کی روک تھام تو ضلعی انتظامیہ کا کام نہیں ہم نے حکومتی احکامات یہ حکمت عملی ترتیب دی تھی کہ شہری کے وسطی اور رہائشی علاقوں میں یہ منی پیٹرول پمپس نہ ہوں کیونکہ اگر یہ پیٹرول آگ پکڑ لے تو آبادی کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ تاہم ابتک مختلف کارروائیوں کے دوران 75 ایرانی پیٹرول فروخت کرنے والے منی پمپس کو سیل کر دیا گیا ہے جبکہ مزید کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے