پاکستان میں موسم کے بدلتے انداز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ انتباہ اب حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ زہر آلود فضائیں، آلودہ پانی، سڑکوں کا جال، تباہ کن سیلاب، خشک سالی، جانوروں کی نسلوں کا خاتمہ، پیداواری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے اور سردیوں میں بھی گرمی نے ڈیرے جمانے شروع کردیے ہیں۔ کہیں بہار کے موسم ختم ہوگئے ہیں، کہیں بہار کے مہینے مارچ میں جون جیسی گرمی پڑنے کی شکایت تو کہیں سردی کی شدت کا مہینہ سمجھے جانے والے نومبر میں بھی دن کے وقت پنکھے چلانے کی نوبت آ گئی ہے۔ ہمارے اطراف میں آئے روز یہ بحث نظرآتی ہے کہ سردیوں کا دورانیہ اتنا کم اور گرمی کی شدت میں دن بدن اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہےاور موسمیاتی پیٹرن میں تبدیلی کیوں آرہی ہے؟
پاکستان کا شمار دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے جس کے تباہ کُن اثرات گزشتہ کئی سالوں سے مرتب ہورہے ہیں۔ جس کی ایک نہیں، کئی وجوہات ہیں جس میں درختوں کی کٹائی سے لے کر انڈسٹریل فضلہ اور گاڑیوں کا دھواں اور سب سے بڑھ کر آبادی میں اضافہ شامل ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مزید مہلک اثرات مرتب ہورہے ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کے لیے شہری علاقے پُرکشش منزل ہوتے ہیں۔ حکومت کی یہ طرف سے اسے نظرانداز کرنا ہماری ماحولیاتی پامالی میں بہت بڑے اضافے کا باعث بن رہی ہے، جس سے کاروبار ِزندگی بھی متاثر ہو رہا ہے لیکن اس آلودگی کی روک تھام کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔
پاکستان میں ادارے تو ہیں لیکن ان کی کارکردگی نہیں ہے۔ منصوبے تو ہیں لیکن عملدرآمد نہیں۔ حکومتوں کی تبدیلی کے خدشات اور حکمرانوں کی کرسی کو لاحق خطرات کی طرح موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی عرصہ دراز سے خطرے کی گھنٹی بجا رکھی ہے لیکن ہم ہیں کہ اس پر کان دھرنے کی بجائے مزید خطرناک مسائل کو دعوت دے رہے ہیں جس میں بیماریوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ جبری ہجرت کا رجحان بھی غالب آرہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔اس سے پاکستانی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اب پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے ۔ لیکن حکومت اس کے سد باب کی بجائے یا تو مسلسل نظر انداز کررہی ہے یا پھر یہ اس کی ترجیحات میں ہی نہیں۔
ایک طرف بھارت ہے جو ماحول کو بہتر بنانے کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا منصوبہ بنارہا ہے، لیکن ہم نہ تو تعمیراتی سرگرمیوں کوکم کرسکے ہیں اور نہ ہی دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کرسکے۔ اب یہ مسئلہ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہورہا ہے، لیکن جس وقت اقدامات کرنے کی ضرورت تھی تب نہیں کیے گئے، اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی اگر سنجیدگی سے کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس کے حل کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ۔
عالمی برادری موسماتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق خطرات کو بھانپ چکی ہے، لیکن ہمیں عالمی ماہرین بھی یہ احساس دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ موسمیاتی تبدیلیاں دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ہیں۔ قدرتی آفات ہمیں چاروں اطراف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا ہر خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے مختلف طرح سے متاثر ہے، لیکن ہم اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ آخر ہم کب اپنی کوتاہیوں پرنظر ثانی کریں گے اور پاکستان کو سب سے بڑے دشمن موسمیاتی تبدیلیوں کی بھیانک تباہی سے کب اور کیسےبچائیں گے؟