خیبر پختونخوا: وزیراعلیٰ محمد اعظم خان کی زندگی کے آخری 2 روز، کب کیا ہوا؟

ہفتہ 11 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعے کے روز خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں کچھ خاموشی تھی۔ نگران وزیراعلی نے یو این ایچ سی آر ٹیم کے ساتھ میٹنگ کے بعد باقی تمام مصروفیات اور میٹنگ ملتوی کردی تھی، پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ وہ روزانہ خود تمام فائل ورک کرتے اور میٹنگ کرتے تھے۔

وزیراعلی ہاؤس کے مطابق محمد اعظم خان کی طبعیت جمعے کے روز سے خراب تھی اور صحت زیادہ خراب ہونے پر انہیں حیات آباد میں واقع ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں وہ کچھ وقت زیر علاج رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔

محمد اعظم خان کون تھے؟

محمد اعظم خان خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے پڑنگ نامی ایک گاوں میں بااثر زمیندار خاندان پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چارسدہ اور پشاور سے حاصل کی۔ اور پشاور یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ اور لندن سے بار ایٹ لا کی ڈگری بھی حاصل کر چکے تھے۔

محمد اعظم خان کے قریبی دوستوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے اسٹاف کے مطابق وہ انتہائی قابل اور محنتی انسان تھے۔ محمد اعظم خان نے مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا تھا اور نمایاں نمبروں سے پاس ہو کر پی اے ایس گروپ میں شامل ہو گئے تھے۔

سول سروس کے دوران محمد اعظم خان اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ وفاقی سیکریٹری رہے جبکہ 1990 میں چیف سیکریٹری (این ڈیلیو ایف پی) خیبر پختونخوا بن گئے تھے اور 1993 تک اسی عہدے پر تعینات رہے اور بطور چیف سیکریٹری سبکدوش ہوئے تھے۔

وفاقی و صوبائی نگران کابینہ کا حصہ

محمد اعظم خان غیر جانبدار انسان تھے اور کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے، اس لیے وہ 2 بار نگران کابینہ میں شامل ہوئے جبکہ آخری بار نگران وزیراعلی تھے۔ محمد اعظم خان پہلی بار اکتوبر 2007 میں نگران وزیراعلی شمس الملک کی کابینہ کا حصہ تھے، انہیں نگران صوبائی وزیر خزانہ، منصوبہ بندی و ترقی کا قلمدان دیا گیا تھا۔ محمد اعظم خان کی غیر جانبداری کی وجہ سے دوسری بار انہیں وفاقی نگران کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے جون 2017 میں اس وقت کے نگران وزیراعظم ناصرالملک کے ساتھ نگران کابینہ کام کیا تھا۔

نگران وزیراعلی خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا کے نگران وزیراعلی کے لیے محمد اعظم خان کے نام پر اس وقت اتفاق ہوا جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان شدید تناو کی کفیت تھی۔ وفاق میں عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی وقت سے قبل تحلیل کرا دی تھی اور نگران وزیرا علی کی نامزدگی ایک بڑا چیلنچ تھا۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ بات الیکشن کمیشن تک جائے گی لیکن محمد اعظم خان کے نام پر حکومت اور اپوزیشن اختلافات کے باوجود بھی متفق تھی۔ وزیراعلی محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے پرویز خٹک کی موجودگی میں محمد اعظم خان کو نگران وزیراعلی کے لیے نامزد کیا تھا۔ انہوں نے 21 جنوری 2023 کو نگران وزیراعلیٰ کا حلف لیا تھا۔

کابینہ میں سیاسی بنیادوں پر شامل ممبران سے خوش نہیں تھے

محمد اعظم خان کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اپنی نگران کابینہ کے حوالے سے اکثر پریشان رہتے تھے اور کچھ ممبران پر انہیں شدید تحفظات تھے۔ وہ سیاسی وابستگی اور سیاسی بنیادوں پر کابینہ میں شامل ممبران سے خوش نہیں تھے۔ اور اکثر اس کے بارے بات کرتے تھے۔ ان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ کئی بار تو وہ اسی وجہ سے استعفی دینے تک کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مزید بتاتے ہیں دوسری بار کابینہ کی تشکیل کے بعد ان کے کچھ تحفظات دور ہوئے تھے لیکن ختم نہیں تھے۔

شفاف الیکشن کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے

محمد اعظم خان کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ سیاسی معاملات دور رہتے تھے اور آئینی ذمہ داری یعنی شفاف الیکشن کے لیے کوشش کر رہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ الیکشن شفاف ہو اور انتظامیہ غیر جانبدار رہے اور بعد میں الزام تراشی نہ ہو۔

کابینہ اجلاس میں شریک نہ ہو سکے

جمعے کے روز محمد اعظم خان وزیراعلی ہاؤس میں موجود تھے دفتر بھی آئے تھے لیکن طعبیت خراب ہونے کے باعث صرف یو این ایچ سی آر کے وفد سے ملاقات کے بعد تمام میٹنگز منسوخ کر دی تھیں اور کابینہ اجلاس میں بھی شرکت نہیں کر سکے تھے۔

محمد اعظم خان کس مرض میں مبتلا تھے؟

نگران وزیراعلی محمد اعظم خان کو گزشتہ رات پشاور کے نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر گلزار کے مطابق ان کی طبعیت کافی خراب تھی۔ انہیں 4 دن سے ڈائریا اور الٹی کی شکایت تھی۔ جبکہ رات کو ہی انکا سٹی اسکین اور تمام ٹیسٹ کیے گیے تھے۔ ڈاکٹر گلزار نے مزید بتایا کہ سٹی سکین سے پتا چلا تھا کہ انہیں ہرنیا ہے۔ آپریشن کے بارے میں فیصلہ آج ہونا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ہفتے کی صبح 9 بجے انہیں دل کا دورہ پڑا جس سے جانبر نہ ہوسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp