کیا اتنا کافی ہے؟

پیر 27 فروری 2023
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فن تحریر چار ہزار سال قبل مسیح میں وجود میں آیا جبکہ دنیا کا پہلا افسانہ مصر کے شاہ خامزی نے 4800 قبل مسیح میں لکھا۔ ہندوستان میں بھی کہانی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ وید، اپنشد، پران اور مہا بھارت وغیرہ میں متعدد کہانیاں موجود ہیں۔

ویدک ادب اڑھائی ہزار سال قبل مسیح میں شروع ہوا۔ میر امن کی ’باغ و بہار‘ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جاتی رہیں گی۔’باغ و بہار‘ انیسویں صدی کی سب سے پہلی نثری تصنیف ہے جو اردو میں لکھی گئی۔

سجاد حیدر یلدرم اردو کے صاحب اسلوب اور رجحان ساز ادیب تھے۔ وہ نہ صرف اردو نثر میں انشائے لطیف کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ جدید تحقیق کے مطابق وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار بھی ہیں۔

یلدرم نے اردو میں داستان اور ناول سے الگ اور بلند ایک نئی اور مختلف صنف ادب کی بنیاد رکھی۔ جس کا شمار آج مختصر افسانے کے نام سے ہماری زبان کی سب سے زیادہ مقبول، زندگی کے سب سے زیادہ قریب اور فن کے اعتبار سے سب سے زیادہ پُر لطف صنف ادب میں ہوتا ہے۔ انکے افسانوں کا مجموعہ 1910ء میں ’خیالستان‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔

افسانے کے محدود کینوس میں طوالت کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ بے جا تفصیل سے تصویر میں حرکت نہیں آتی اور افسانویت باقی نہیں رہتی۔ انگریزی زبان میں افسانے کو ’شارٹ سٹوری‘ یعنی مختصر کہانی کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی لمبائی کی کوئی خاص حد مقرر نہیں۔

بعض کہانیاں تو درجنوں صفحات پر محیط ہوتی ہیں، تاہم انہیں بھی شارٹ سٹوری کہا جاتا ہے، لانگ سٹوری یا ناول نہیں لیکن مختصر کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟ پانچ سو الفاظ پر، سو الفاظ پر ، یا پچاس الفاظ پر مشتمل یہ طے نہیں ہے۔

1987ء میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مقابلے کا اعلان کیا جو بعد میں ’55 فکشن‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس مقابلے میں دنیا بھر سے مصنفین کو پچپن الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

منتخب کہانیوں کو اخبار میں شائع کیا جاتا ہے۔ 2006ء میں اخبار کو سات سو کہانیاں موصول ہوئیں جن میں سے 16 معیار پر پوری اتر سکیں۔ ان مختصر کہانیوں کا انتخاب ’دنیا کی مختصر ترین کہانیاں‘ کے نام سے شائع بھی ہو چکا ہے۔

لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جنہیں پچپن الفاظ بھی بہت زیادہ لگتے ہیں۔ کم از کم ایک مصنف نے تو مختصر کہانی کی آخری حد پار کر ڈالی ہے اور اس سے سبقت لے جانا ناممکن ہے کیونکہ اس کہانی میں الفاظ کی تعداد صفر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کہانی میں ایک لفظ بھی نہ ہو؟
عنوان:
’تیسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی تاریخ‘
کہانی:
دو سادہ صفحے

سوچئے تو کیا نہیں ہے اس کہانی میں طنز، سبق آموزی کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ظاہر ہے اختصار میں دنیا کا کوئی ادیب اس کہانی سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔ تاہم اس سے قدرے لمبی کہانیوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے حتیٰ کہ اس صنف میں ڈراؤنی کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہانی دیکھیے:
’دنیا کا آخری آدمی کمرے میں بیٹھا تھا، اچانک دروازے پر دستک ہوئی‘۔
یہ ’آخری آدمی‘ انتظار حسین والا نہیں ہے۔

مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکا کے مشہور میگزین ’وائرڈ‘نے نومبر 2006ء کے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ میگزین کے مدیر نے امریکا کے معروف ادیبوں کو صرف چھ الفاظ پر مشتمل کہانی لکھنے کی دعوت دی۔

میگزین کے پاس بطور مثال نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب ارنسٹ ہیمنگوے کی مختصر کہانی موجود تھی:
’بچگانہ جوتے، برائے فروخت کبھی استعمال نہیں ہوئے‘۔

انگریزی میں یہ کہانی صرف چھ الفاظ پر مشتمل ہے، جس میں ہیمنگوے نے پوری داستان سمو دی ہے۔ جوتے کون بیچ رہا ہے؟ کسی بچے کے والدین، شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا یا مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا۔

والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہوں گے لیکن اب وہ اپنے مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو گئے کہ مرے ہوئے بچے کے جوتے بیچنے کی نوبت آگئی۔

غربت کا عفریت، معاشی ناہمواری، وسائل کی نامناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی اور ذاتی المیے کے باوجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا سب کچھ اس کہانی میں موجود ہے۔یہی وجہ ہے ہیمنگوے نے اس کہانی کو اپنی تخلیقات کی اعلیٰ ترین کہانی قرار دیا تھا۔

وائرڈ میگزین کی درخواست پر امریکا کے صف اول کے درجنوں مصنفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجیں۔ مصنفین کی اکثریت کا تعلق سائنس فکشن، فینٹسی اور دہشت ناک کہانیاں لکھنے والوں میں سے تھا۔

میگزین کو موصول ہونے والی کہانیوں کے موضوعات بہت متنوع تھے، باہمی تعلقات، محبت اور سیاست وغیرہ تاہم بہت سی کہانیوں میں ’ڈس ٹوپیا‘ کا تصور بھی نظر آتا ہے یعنی ایسی ریاست
جس میں زندگی کے حالات محرومی، جبر یا دہشت گردی سے انتہائی خراب ہیں(مایوسی اور نا امیدی ان کا ماخذ ہیں)۔ یہ کوئی انوکھی بات اس لیے بھی نہیں کیونکہ ’ڈس ٹوپیا‘ پچھلے سو برس کے ادب کے مرکزی موضوعات میں سے ایک ہے۔

وائرڈ میگزین سے چند منتخب کہانیاں نذر قارئین ہے: دیکھئے ان میں سے کئی کہانیاں اپنے ایجاز و اختصار اور ایمائیت کی بدولت کلاسک کے درجے تک پہنچ گئی ہیں:

’اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت‘

’میں تمہارا مستقبل ہوں، مت رو بچے‘

’میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا، خدا حافظ‘

’دن برباد، زندگی برباد، ذرا میٹھا بڑھانا‘

’کتبہ:بے وقوف انسان، زمین سے بھاگ نہیں سکا‘

’بہت مہنگا ہے، انسان رہنا‘
’بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی‘

’انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا‘

’مشین مستقبل میں پہنچ گئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا‘

’جھوٹ پکڑنے والی عینک کی ایجاد، انسانیت منہدم ہوگئی‘

’میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلائے گی‘

’اس سے شادی مت کرو، گھر خرید لو‘

’آسمان ٹوٹ پڑا، تفصیل گیارہ بجے‘

’کیا اتناکافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp