پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان انتخابی مفاہمت کیا معنی رکھتی ہے؟ مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے اس سوال کا جواب ضروری ہے، لیکن اس سوال کا جواب حاصل نہیں کیا جا سکتا اگر گزشتہ دو ڈھائی دہائی کی سیاست کو کھنگال نہ لیا جائے۔ اس عرصے کی سیاست دو طرح کے جذبات کے گرد گھومتی ہے۔
27 دسمبر 2007 کے سانحے یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے قبل پیپلز پارٹی کے مخالفین کا عقیدہ تھا کہ یہ جماعت مرکز میں وفاقی لب و لہجہ اختیار کرتی ہے اور دیہی سندھ میں آ کر خالص سندھی قوم پرست جماعت کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔
یہ الزام کتنا درست تھا اور کتنا غلط، اس بحث میں پڑے بغیر یہ سمجھنا زیادہ ضروری ہے کہ یہ جماعت وفاق اور سندھ متوازی میں پالیسی کا ایک بھرپور جواز رکھتی تھی اور دانشور حلقوں میں اس کی کبھی کبھار بازگشت بھی سنائی دے جاتی تھی۔ یہ ایک دلچسپ دلیل تھی۔ دلیل یہ تھی کہ 1977 کے مارشل لا کے بعد دیہی سندھ میں پُرتشدد قوم پرستی کی جو لہر اٹھی، کوئی جواب اس کا بھی ہونا چاہیے۔
ان دانش وروں کے مطابق دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا انداز سیاست اس کا جواب تھا۔ خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اس حکمت عملی کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھ پائی تو اس کے نتیجے میں علیحدگی کے رجحانات رکھنے والی قوم پرست تنظیمیں ایک روز بے اثر ہو جائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔
خیر، پیپلز پارٹی یا اس کے ہم خیال طبقات کا استدلال اپنی جگہ، اس جماعت کے کٹر نظریاتی مخالفین کم از کم 2007 تک یہی چاہتے تھے کہ اس کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ن خم ٹھونک کر کھڑی ہو جائے اور اس جماعت کا صفایا کر دے۔
ایک تجویز یہ بھی تھی کہ 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے جس طرح سیاست کے میدان میں ہنگامہ خیز انٹری دے کر کھوڑو خاندان کی سیاست کا قلع قمع کر دیا تھا، بالکل اسی طرح نواز شریف سندھ کی سیاست میں حصے دار بن کر تاریخ رقم کر دیں۔
ان لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ عجب نہیں ہو گا اگر نواز شریف بے نظیر بھٹو کے حلقے قمبر شہداد کوٹ سے قسمت آزمائی کریں اور قسمت ان کی یاوری نہ کرے۔ دلیل اس کی دلچسپ تھی۔ گزشتہ صدی کے آخری برسوں کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی طرف سے مغیری نام کے ایک نسبتاً غیر معروف اور ایک عام سے کارکن نے اس حلقے سے انتخاب میں حصہ لیا اور اچھے خاصے ووٹ حاصل کر لیے۔ بعد میں جمعیت علمائے اسلام نے اس حلقے میں دلچسپی لینی شروع کی تو اس کی کارکردگی مغیری صاحب سے بھی بہتر تھی۔ اسی بنا پر کہا جاتا تھا کہ نواز شریف اگر ہمت کریں تو تاریخ بدل سکتی ہے لیکن نواز شریف نے ان حلقوں کا احترام کرنے کے باوجود ان کی خواہش کی تکمیل نہ کی۔
دوسرا مکتبہ فکر خود مسلم لیگ کے اندر تھا۔ سندھ میں مسلم لیگ ن ایک ایسی حزب اختلاف تھی جس کے کارکنوں کی محنت، آزمائشیں اور قربانیاں تو اسی طرح کی تھیں جیسے کسی بھی حزب اختلاف کی جماعت کے کارکنوں کو دینی پڑتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے وجود کے بارے میں شاعر کا یہ تبصرہ کافی ہوتا کہ ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘۔ ان کارکنوں اور راہنماؤں کا نقطہِ نظر بھی یہی تھا کہ اتنی محنت کے باوجود بھی اگر ہم تین میں ہوں اور نہ تیرہ میں تو پھر ہماری سیاست کا مقصد کیا ہے؟
مسلم لیگی کارکنوں کا ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ پارٹی چوں کہ سندھ میں اقتدار کی سیاست میں حصے دار نہیں تھی، اس لیے جان کی بازی لگا دینے کے باوجود مرکزی قیادت کے ساتھ ان کا اس قسم کا رشتہ استوار نہیں ہو پاتا تھا جس قسم کا رشتہ پنجاب یا ملک کے دیگر حصوں میں بن جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
مسلم لیگ کی قیادت خاص طور پر میاں نواز شریف ان نقطہ ہائے نظر کو سمجھتے تھے اور ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں کبھی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی کئی وجوہات تھی۔ ایک اہم اور بڑی وجہ تو طاقتور اور فیصلہ ساز حلقوں کی حکمت عملی تھی۔ اس حکمت عملی کے تحت مرکز میں عوامی طاقت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا اقتدار ناگزیر بھی ہو جاتا تو سندھ کو اس کے باوجود اس کے لیے نو گو ایریا بنا دیا جاتا۔ اس کی دوسری وجہ خود میاں نواز شریف کی اپنی حکمت عملی تھی۔
1999 میں جس طریقے سے انہیں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا، اس کے نتیجے میں صرف ان ہی کی نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے نقطہِ نظر اور حکمت عملی میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی تھی۔ محترمہ تو شہید کر دی گئیں البتہ میاں صاحب کا خیال یہ تھا کہ جلد وہ وقت آئے گا جب ملک کی تمام آئین پسند جمہوری سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے فیصلہ کُن معرکے میں اکٹھا ہونا پڑے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ وقتی سیاسی مفادات کی خاطر باہمی تعلقات پر کوئی آنچ نہ آنے دی جائے۔ عمران خان کسی پیرا شوٹر کی طرح اقتدار میدان میں نہ کودائے جاتے اور وہ اس بری طرح وہ ناکام نہ ہوتے تو نہیں معلوم وہ فیصلہ کن معرکہ کب رونما ہوتا لیکن عمران خان کے ہاتھوں قومی معیشت کی تاریخی تباہی نے ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور جمہوری قوتوں کے لیے میدان خالی کر دیا گیا۔ یوں یکایک حالات بدل گئے اور قومی سیاسی قوتوں کے لیے فطری سیاست کی طرف لوٹنا ممکن ہو گیا۔
مسلم لیگ ن اور اس کے قائد میاں نواز شریف کی سندھ کی سیاست کے سلسلے میں تازہ حکمت عملی کا حقیقی پس منظر یہ ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ پہلی بار ہوگا جب سندھ میں ن لیگ کے اس طرح متحرک ہو جانے سے کسی سیاسی حریف یا حلیف کی ایسی دل آزاری نہیں ہوگی جس طرح پیپلز پارٹی کے پنجاب میں متحرک ہونے سے ن لیگ کو شکایت نہیں ہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی جماعت سندھ میں کیا کارنامہ انجام دے گی؟ پارٹی کی سندھ کی قیادت میں تبدیلی اس جماعت کے عزائم کی خبر دیتی ہے۔ بشیر میمن صاحب کو صوبائی صدر بنا دیا گیا ہے۔ ان کاتعلق صوبے کے ایک متحرک سیاسی خاندان سے ہے۔ یہ خاندان نہ صرف وسیع عوامی اثر و نفوذ رکھتا ہے بلکہ سیاسی جوڑ توڑ کا تجربہ بھی اسے حاصل ہے۔
آئندہ چند دنوں یا ہفتوں میں دیہی سندھ میں نئی سیاسی صف بندی متوقع ہے۔ یہ صف بندی اس اعتبار سے تاریخی ثابت ہو گی کہ یہ پہلی بار ہوگا کہ سندھ کے طول و عرض میں بکھرا ن لیگ کا نظریاتی ووٹ ضائع نہیں ہوگا بلکہ قومی اور صوبائی ایوانوں میں اسے بھی حصہ بقدر جثہ مل جائے گا۔
شہری سندھ خاص طور پر کراچی میں بھی صورت حال اس سے ملتی جلتی ہوگی۔ شہر کے کم از کم 3 اضلاع میں پنجابی، ہزارے وال اور پشتون ووٹروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جس کی پہلی ترجیح مسلم لیگ ن ہے لیکن ماضی کے حالات میں یہ ووٹ بے اثر رہتے تھے لیکن یہ پہلی بار ہو گا کہ ایک با معنی انتخابی اتحاد کی بدولت یہ ووٹ مؤثر ثابت ہوں گے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن ایک محتاط اندازے کے مطابق قومی اسمبلی کم از کم 3 اور صوبائی اسمبلی کی 6 سے 7 نشستیں حاصل کر سکے گی۔
قومی سیاسی منظر نامے پر یہ ایک بڑی پیش رفت ہے جو نہ صرف سیاسی ماحول میں وسیع النظری میں اضافے کا باعث گی بلکہ اس سے سیاسی جماعتوں کی اثر انگیزی میں بھی اضافہ ہوگا۔