ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے جو عوام کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ آوارہ کتے صرف انسانوں کے لیے ہی خوفناک ثابت نہیں ہو رہے بلکہ یہ چند چھوٹے اور معصوم جانوروں پر بھی حملہ آور ہو کر ان کو بآسانی نگل لتیے ہیں، جبکہ انسان ان جانوروں کو زہریلے کتوں کے خوف سے بچا بھی نہیں پاتے۔
واضح رہے کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر سول اسپتال میں کم و بیش 150 ایسے افراد کو لایا جاتا ہے جو آوارہ کتوں کا نشانہ بن چکے ہوتے ہیں۔ کراچی میں رواں سال 26 ہزار سے زیادہ افراد کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہو کر اسپتال پہنچے۔ حکام کے مطابق رواں ماہ ان کیسز میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد میں آوارہ کتوں کی بہتات، شہریوں میں خوف و ہراس
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے مطابق ہر ہفتے 30 سے 35 کے درمیان آوارہ کتوں کے کاٹنے کے کیسز آتے ہیں۔ جبکہ لاہور میں گزشتہ ہفتے ایک دن میں آوارہ کتوں کے کاٹنے سے 6 بچے زخمی ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبہ سندھ میں آوارہ کتوں کی تعداد تقریباً 28 لاکھ ہے۔ اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں آوارہ کتوں کی تعداد کتنی زیادہ ہوگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بعض اوقات آوارہ کتوں کے ہتھے چڑھنے والے افراد اس دنیا سے ہی چل بستے ہیں۔ لیکن ان بے زبان جانوروں کو بھی مارا نہیں جا سکتا، مگر پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو نقصان پہنچائے بغیر چھٹکارا کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس کا دراصل حل کیا ہے؟۔
آوارہ کتوں کو مار دینے کی پالیسی درست نہیں، سابق ممبر کمیٹی
سابق ممبر کمیٹی برائے آوارہ کتوں کی تحدید آبادی اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ سپرلے راویل نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب سے پاکستان میں آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تب سے حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ ان کو مار دینے کی پالیسی کو اپنایا گیا ہے جو کہ بالکل بھی درست نہیں ہے۔ انڈیا، بنگلا دیش، فلپائن اور دیگر ممالک میں بھی اس طرح کے واقعات میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ان آوارہ کتوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے بہت سے پروگرامز بنائے ہیں مگر ہم تو دیکھا دیکھی بھی کچھ نہ کر سکے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اللہ کی اس بے زبان مخلوق کو کچرا سمجھا جاتا ہے۔ کراچی میں اس معاملے کو بھی سینیٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا ہے جبکہ ان کا کام کتوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ کچرا اٹھانا ہے، ان کی جانب سے ایک دن میں گولی مار کر تقریباً 100 کتوں کو مارا جاتا رہا جو کہ ایک بہت ہی وحشیانہ طریقہ ہے۔
یہاں انسانوں کی آبادی اور غربت کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہے
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف یکطرفہ نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ غریب کے بچے کو کتے نے کاٹ لیا، جہاں بچہ اور کتا دونوں کھانا ڈھونڈنے جائیں گے اور آمنے سامنے ہوں گے وہاں ایسا ہی ہوگا، یہاں انسانوں کی آبادی اور غربت کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آوارہ کتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا میں ٹریپ نیوٹر ویکسینیٹ ریلیز کے نام سے پروگرامز چلتے ہیں، اس پروگرام میں ہوتا یہ ہے کہ آپ کتے کو پکڑیں اور اس کا ’ری پروڈکشن‘ کا سسٹم ختم کر دیں، چاہے وہ میل ہے یا فی میل انہیں نیوٹر کریں اور پھر ایسے علاقے میں چھوڑ دیں جہاں انہیں پتا ہو کہ کھانا کہاں سے مل سکتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی قدرتی زندگی ختم کر کے جب اس نے مرنا ہوگا وہ مر جائے گا۔
5 سے 10 سال کے منصوبے پر کام کرنا ہو گا
انہوں نے کہا کہ اس کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ 5 سے 10 سال کا ایک پراجیکٹ چلے، جس میں ان کتوں کی تعداد کم ہو جائے گی مگر بالکل ختم نہیں ہو سکتے، ان کے کانوں میں ٹیگز لگائے جائیں کہ یہ میونسپل کا کتا ہے، مطلب یہ کہ اس کے حقوق ہیں اور نیوٹر کتا ہے، اسے کوئی مار نہیں سکتا۔
انہوں نے کہاکہ بنگلا دیش اور ترکیہ بھی اسلامی ملک ہیں وہاں بہت پیار سے انہیں نیوٹر کر کے ٹیگ لگا کر چھوڑ دیا جاتا یے، ہمارے ہاں تو لوگ اسے پلید اور نجانے کیا سمجھنے لگتے ہیں۔ ’تھائی لینڈ جیسے ملک جانوروں کو کنٹرول کر رہے ہیں وہ دنیا کے لیے ایک مثال ہیں، لیکن پاکستان میں کتے سے لے کر ہاتھی اور شیر تک سب کا برا حال کیا ہوا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو جگہ جگہ شیلٹرز بنے ہوئے ہیں ان میں صحتمند کتے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سی ڈی اے بھی یہی کرتا ہے کہ کتوں کو جا کر سینٹر میں پھینک دیتا ہے وہاں کسی ایک کو بیماری لگتی ہے جو باقی سب میں پھیل جاتی ہے اور وہ مر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس کتوں کو کھانا فراہم کرنے کے وسائل ہی نہیں ہیں۔ کتوں کو ایسے حالات میں پھینک دینا بھی کرائم میں آتا ہے۔
’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ ان کو گھر لے جائیں، یہ نہیں کہہ رہا کہ انہیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلائیں مگر انہیں گولیاں نہ ماریں، زہر نہ دیں، ان پر گرم پانی یا تیزاب نہ پھینکیں، اس رویے کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے‘۔
کتوں کو مار دینا مسئلے کا حل نہیں ہے، سارہ گنڈاپور
سایہ اینیمل ویلفیئر کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر سارہ گنڈاپور نے اس حوالے سے بتایا کہ آوارہ کتوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا جب تک کہ ہم اس مسئلے کو مناسب اہمیت اور آگاہی نہیں دیں گے۔ اور اس بات کو سمجھنے کہ ضرورت ہے کہ کتوں کو مار دینا حل نہیں ہے لہٰذا TNVR (ٹریپ، نیوٹر، ویکسینیٹ، اور ریلیز) کے حل کے بغیر کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ اب، TNVR بہت سے لوگوں کو ایک غیر عملی نقطہ نظر کی طرح لگتا ہے لیکن آبادی سے نمٹنے کا واحد طریقہ TNVR پالیسی ہی ہے اور یہ صرف سرکاری اور پرائیویٹ این جی اوز ہی کر سکتی ہیں جو تمام یا زیادہ تر گلیوں کے جانوروں کو محفوظ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر TNVR پروگرام کی سہولت فراہم کر سکتے ہیں اور ریبیز سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔
عوام کو آگاہی دینا ہوگی
انہوں نے کہاکہ اگر دوسرا حل میں تجویز کروں تو وہ یہ ہے کہ عوام کو آگاہی اور تعلیم دی جائے کہ آوارہ کتے خطرناک نہیں ہیں خاص طور پر اگر ان کو نیوٹرڈ یا اسپے کیا گیا ہو اور ویکسین لگائی گئی ہو۔ وہ جارحانہ نہیں بلکہ دوستانہ، وفادار اور ان لوگوں کی حفاظت کریں گے جو انہیں کھانے پینے کو دیتے ہیں اور پیار کرتے ہیں۔
پاکستان میں آوارہ کتوں کے حوالے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے، یاسر سلمان
اینیمل ایڈووکیٹ یاسر سلمان نے کہا کہ مسئلہ کتوں کا نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ان کے حوالے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے، ان کے لیے کوئی سینٹرز نہیں ہیں، ٹی این وی آر کی پالیسی پر عملدرآمد ہی نہیں ہے۔ تو پھر یہ کہنا کہ یہ آوارہ کتے مسئلہ ہیں تو یہ سراسر غلط ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ لوگوں کو بھی آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے کہ کتے کو پتھر ماریں گے تو وہ ظاہر ہے کاٹے گا۔ عوام کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے اور انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ چوری کی وارداتوں سے بچنے کے لیے کتے سے زیادہ بہتر آپشن کوئی نہیں ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ یہی لوگ پھر انہیں مارنے کے بجائے سینٹرز میں جا کر اڈاپٹ کریں گے اور گھروں میں رکھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اگر چند درجن لوگ بھی یوں سینٹرز سے کتے لے لیں تو ان کی تعداد کم ہوجائے گی یوں ان کو مارنا بھی نہیں پڑے گا اور نہ ہی سینٹرز میں رکھ کر اخراجات کرنا پڑیں گے۔ ٹی این وی آر کے علاوہ ایک یہ حل بھی ہے کہ ان کتوں کو نیوٹرل کر کے لوگوں کو آگاہی دی جائے اور ان کی خواہش کے مطابق کتے دیے جائیں۔
سلمان صوفی کہتے ہیں کہ ٹی این وی آر پروگرام کتوں کی تعداد کو کم کرنے کا سب سے بہتر اور محفوظ طریقہ ہے۔ اور اب تو اس پر کام ہو بھی رہا ہے۔ اور جہاں تک چائنا کی جانب سے پاکستان کو کتوں اور گدھوں کی امپورٹ کی خبر ہے تو یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اس حوالے سے بہت پروپوزل آئے لیکن پاکستان نے کبھی ان کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان کو کبھی ایسے پروپوزلز کو قبول کرنا چاہیے۔