پی ایس ایل میں لاہور قلندر کی طرف سے ایک ہیش ٹیگ پیش کیا گیا تھا ‘سوچنا بھی منع ہے’۔ بات ہیش ٹیگ تک ہی رہنی چاہیے تھی لیکن ہم اسے اِس ورلڈ کپ میں پرسنل لے گئے۔ بات سوچنا بھی منع ہے سے دیکھنا بھی منع ہے پر بہت ہی جلدی پہنچ گئی۔
میں نے پاکستان کے آخری تِین میچز میں دنیا کا ہر کام کر لیا کیونکہ میرے سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے گاڑی کی بیٹری بدلوائی ، دو نوکریوں کو انکار کیا ، چار لوگوں کو واٹس ایپ پر بلاک کیا اور ایک کارپٹ بھی دھو دیا۔ اور میں اِس سب کے لیے اپنی ٹیم کی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے کچھ بھی دیکھنے لائق نہیں چھوڑا۔ سوچنا چھوڑ کر کچھ نا کرنے والے کو پاکستانی ٹیم کہتے ہیں۔
اِس ورلڈ کپ میں ‘سوچنا بھی منع ہے’ ہماری ٹیم کی رگ رگ میں شامل تھا ۔ ہم جیسے بولنگ کر رہے تھے ، ہم نے اس کو کہیں بھی بدلنا ضروری نہیں سمجھا کیوں کہ سوچنا منع تھا۔ ہم جیسے بیٹنگ کر رہے تھے ، وہ بھی بدلنا ضروری نہیں سمجھا۔ فیلڈنگ ویسے ہی کوشش کی کہ نا ہو۔
جس آرڈر میں بلےباز آنے چاہیے تھے وہ بھی نہیں بدلے۔ کسی وقت لگا کے شاید ہماری ٹیم ” یار بدل نا جانا موسم کی طرح “ کو سیریس لے گئی ہے۔ پی سی بی کے چیئرمین اِس ٹیم سے زیادہ بدلے ہوں گے۔ پی سی بی کی کمیٹیاں اِس ٹیم سے زیادہ بدلی ہوں گی۔ اس ملک کے وزیر اعظم اس ٹیم سے زیادہ بدلے ہوں گے لیکن نا بدلی تو ہماری یہ ٹیم اور نا ہماری قسمت۔
اب آ جائیں اِس ٹیم کے فینز یعنی چاہنے والوں کی طرف۔ ایک وہ گروپ ہے جو آپ کی تنقید پر سب کچھ چھوڑ کے آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ ایسی ایسی بد دعائیں دیں گے جن کو پورا کرنے کے لیے بھی ایک عمر درکار ہوگی یا شاید پھر بھی پوری نہیں ہوں گی۔ جیسے کے” تمہارے گھر گیس ہی نا آئے “، وہ تو پہلے ہی نہیں آ رہی ۔” تم بابر جیسی نہیں بن سکتی اس لیے سڑتی ہو “، میں بن بھی نہیں سکتی وہ مرد ہے اور میں عورت۔ بد دعاؤں میں یہ بھی سنا کہ تمہارے سر میں جوئیں پڑ جائیں۔ سر پر بال تو ہیں نہیں ، کدھر سے پڑیں گی جوئیں؟ قصہ مختصر یہ ہے کہ یہ والا گروپ آخری دم تک ٹیم کے ساتھ ایسے ہی رہا جیسے ”جوئیں“ آپ کے بالوں کے ساتھ چپکی رہتی ہیں ۔ اِس گروپ کو پورے ٹورنامنٹ میں صرف وہ لمحے ہی تقویت دیتے رہے جس میں ہمارے پلیئرز اپنا بیٹ کسی کو تحفے میں دے رہی ہوتے تھے یا کسی اورٹیم کے کھلاڑی کے ساتھ ہنس کے بات کر رہی تھے۔ کیوں کہ ، سوچنا بھی منع ہے۔
پِھر وہ آ جاتے ہیں جنہوں نے کوئی میچ نہیں دیکھا ہوتا اور صرف ورلڈ کپ میں جاگتے ہیں۔ وہ کسی اور ہی لیول پر سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دم آتے ہیں اور ”شمی اور بمراہ جیسے بولرز کو ایوین ہی ہیں “ کہہ جاتے ہیں۔ نا ان کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ شاہد آفریدی شاہین شاہ کے سسر ہیں ، والد نہیں۔ عماد وسیم ٹیم میں ہیں ہی نہیں۔اور یہ بھی یاد دلانا پڑتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم عمران خان نہیں تھے۔ یہ میرا پسندیدہ گروپ ہے جن کی لا علمی میرے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔
اب اُس مجاہد گروپ پر آ جائیں جو آخری دم تک یہی کہتے رہے ”ابھی بھی فیل آ رہی ہے ، کیا ہم 700 رنز کر کے انگلینڈ کو 12 سکور پر آؤٹ کر سکتے ہیں“۔ انہیں بھی سوچنا منع ہی تھا اسی لیے ایسے خیالات آ رہے تھے۔
سب سوچوں کو بالائے طاق رکھ کر ہماری ٹیم نے وہ کیا جو ان کا دِل کیا۔ اب اسے برا کہیں یا اچھا ، فی الحال یہی آپ کی ٹیم ہے ، یہی آپ کی زمین ہے اور یہی آپ کی قسمت ہے۔ اب قسمت کو قبول کر لیں یا لڑ لیں۔ لیکن سوچیں ضرور کے آخر کدھر خطا سرزد ہوئی؟ مگر آپ کو تو سوچنا منع ہے۔