ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں 90 روز سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریوں کے لیے انتخابی اتحاد بنانا شروع کر دیے ہیں، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے بھی ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے، پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہر الیکشن سے قبل مختلف سیاسی پارٹیاں انتخابی اتحاد کرتی ہیں تاہم ان انتخابی اتحادوں سے بیشتر اوقات سیاسی جماعتوں کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
مزید پڑھیں
پاکستان میں انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کو اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر جماعت ایک دوسرے سے رابطے میں رہتی ہے تاہم 9 مئی کے واقعات کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی سیاسی جماعت کا انتخابی اتحاد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے استفسار کیا کہ ان کے خیال میں آئندہ عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کا کس سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد ممکن ہے؟۔
پی ٹی آئی کے ساتھ وہ جماعت اتحاد کرے گی جن کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بن رہی، سہیل وڑائچ
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ وہی سیاسی جماعت اتحاد کرے گی جن کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بن رہی، اور وہ ظاہر ہے ہو سکتا ہے کہ الطاف گروپ کر لے، ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر رکھے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض تو ہے لیکن وہ اپنی سپیس چاہتی ہے، ’میرا خیال ہے کہ وہ اپنی ناراضگی بڑھا کر دکھاوا کر رہے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کو بھی سپورٹ حاصل ہو سکے‘۔
عام انتخابات سے قبل سب سے زیادہ اتحاد ن لیگ کے ساتھ ہوں گے
سہیل وڑائچ نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل سب سے زیادہ اتحاد ن لیگ کے ساتھ ہوں گے، جیسا کہ ایم کیو ایم کے اتحاد کا اعلان ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج یا کل ق لیگ کا چوہدری شجاعت حسین گروپ بھی ن لیگ کے ساتھ اتحاد کا اعلان کر دے گا، اسی طرح استحکام پاکستان پارٹی کا بھی ن لیگ کے ساتھ اتحاد ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ ن لیگ کافی گروپوں کے ساتھ اتحاد کرے گی، ’میرا خیال ہے خیبر پختونخوا میں بھی بڑے پیمانے پر انتخابات سے قبل ن لیگ کا سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ہو گا‘۔
پی ٹی آئی کے ساتھ کسی سیاسی جماعت کا اتحاد ہوتا نظر نہیں آ رہا، مجیب الرحمان شامی
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ اس وقت تو پی ٹی آئی کے ساتھ کسی جماعت کا اتحاد بنتا نظر نہیں آ رہا تاہم پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان برف پگھلی ہے، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو رہا ہے لیکن فی الحال نظر نہیں آ رہا کہ انتخابی اتحاد ہو جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ دونوں جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اتحاد پر یقین رکھتے ہیں اور اتحاد کر سکتے ہیں لیکن ابھی یہ کافی مشکل لگ رہا ہے، ’یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں یہ جماعتیں کچھ نہ کچھ قریب آئی ہیں‘۔
پاکستان میں انتخابی اتحاد ہمیشہ بنتے رہے ہیں
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ انتخابی اتحاد لمبی کہانی ہیں، سب سے پہلا انتخابی اتحاد مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف ایسٹ بنگال میں 1954 کو بنا تھا جس پر مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی، اس اتحاد کو جگتو فرنٹ کہا گیا تھا، اس اتحاد میں سہروردی صاحب، مولوی فضل الحق وغیرہ شامل تھے، ایوب خان کے دور میں بھی اتحاد بنتے رہے۔
انہوں نے کہاکہ 1977 میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بڑا انتخابی اتحاد پاکستان قومی اتحاد بنا جس سے ذوالفقار بھٹو کا تختہ الٹا گیا، پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بھی بنا، بعد ازاں آئی جے آئی اتحاد بنا جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام شامل تھے اور آئی جے آئی نے کامیابی حاصل کی، پہلے پنجاب میں اور پھر وفاق میں حکومت قائم کی اور نواز شریف وزیراعظم بنے۔
انہوں نے کہاکہ 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل بنی اور اس نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی اور وفاق میں حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے انتخابی اتحاد ہیں اور ان میں سے چند اتحادوں نے کافی کامیابی حاصل کی۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ اتحاد انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد بھی قائم ہو سکتے ہیں کیونکہ مجھے لگ رہا ہے کہ کوئی ایک جماعت اکیلے واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور آئندہ انتخابات کے بعد بھی مخلوط حکومت قائم ہوگی جس کی طرف پیش رفت ہو چکی ہے، ابھی تو ایک اتحاد مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان قائم ہوا ہے۔ ’مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک انڈر اسٹینڈنگ ہو گئی ہے اور اتحاد کا اعلان ہوا ہے، ہو سکتا ہے کہ جلد دوسری جماعتیں بھی اس میں شامل ہو جائیں‘۔
عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی روایت نئی نہیں
یاد رہے کہ عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی روایت نئی نہیں ہے، جنرل ایوب خان کے دور میں انتخابی اتحاد ہوا تھا جس وقت فاطمہ جناح اپوزیشن جماعتوں کی متفقہ امیدوار تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ایک اتحاد بنایا گیا، جنرل ضیا کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت کے نام پر اتحاد بنا، بینظیر بھٹو کے دور میں بھی اسلامی جمہوری اتحاد بنا تھا، پاکستان کی تاریخ میں کامیاب ہونے والے انتخابی اتحاد میں 2002 کے انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کا متحدہ مجلس عمل کا اتحاد تھا۔
اس کے علاوہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں سال 2008 میں بھی انتخابات سے قبل ایک اتحاد ہوا تھا جسے آل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کا نام دیا گیا تھا۔ اس اتحاد میں عمران خان اور نواز شریف سمیت دیگر جماعتیں تھیں۔ اتحاد نے فیصلہ کیا تھا کہ جنرل مشرف کے باوردی صدارت چھوڑنے تک انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا تاہم بعد ازاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس اتحاد کو چھوڑ کر انتخابات میں حصہ لے لیا تھا۔