ابّا

پیر 13 نومبر 2023
author image

امر شاہد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

(بک کارنر جہلم کے بانی شاہد حمید کی جہدِ مسلسل کی کہانی۔۔۔ ان کے صاحبزادے کی زبانی)

 

بک کارنر پورے پچاس برس کا ہو گیا۔

آنہ لائبریری سے اشاعت گھر کا سفر، چھوٹے شہر سے کچھ بڑا کرنے کی امنگ، تشنہ کامی اور کام رانی کی داستان۔ ہمت، حوصلے اور جفاکشی کی نصف صدی۔ ایک ادارہ، ایک تحریک، ایک محنت کش، جس نے ساری زندگی کتابوں کو حِرزِ جاں بناکر رکھا اور کتابوں سے عشق کا پرچار کرتا رہا۔ کتابوں کو پُر شوق نگاہوں سے دیکھنا، کئی جتن سے جمع کرنا، سینت سینت کر رکھنا، اُدھڑی جِلدوں کو اپنے ہاتھوں سے جوڑنا، عرق ریزی سے پڑھنا، پڑھ کر پڑھنے کی ترغیب دینا، کچھ عشق کیا کچھ کام کیا، عشق ہی کام اور کام ہی عشق، کتابوں سے جنون کی حد تک واسطہ، کتاب ہی اکلوتا رومانس تھا۔

فخر و انبساط کا عالم، یہ شخص میرا باپ ہے، انھیں ’پاپا‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ شاید بچپن ہی سے عادت تھی۔ دُور جا کے بس گئے تب سے زبان پر ’ابا‘ چڑھ گیا۔ اب سوچتا ہوں، ’پاپا‘ میں وہ بات نہ تھی جو ’ابا‘ کہنے میں ہے۔ ابا اور ربا ہم معنی سے لگتے ہیں۔ جو مٹی کو سونا بنا گئے، وہ ابا!

1973 میں شاہد حمید کی جانب سے شروع کیا گیا اشاعتی ادارہ “بک کارنر جہلم” 50 برس کا ہو گیا۔

میرے ذہن میں ابا کی جو سب سے پُرانی یاد ہے وہ میرے بچپن اور بک کارنر کے شباب کا زمانہ ہے۔ میں گھر کی دہلیز پر منہ بسورے بیٹھا ان کے ساتھ لاہور جانے کی ضد کر رہا تھا۔ وہ ہر جمعے کاروباری دورے پر لاہور جایا کرتے تھے۔ اُردو بازار اُن کی معاشی دنیا تھی اور پیاس کا دریا تھا۔ مجھے تو بس ان کے ساتھ کی چاہ تھی، ہر دم ہمہ وقت۔ گرمی کے دن تھے، ابا نے ڈرایا، تھک جاؤ گے، بہت لمبا اور کٹھن دن ہوتا ہے۔ میں کسی طور نہ مانا اور ان کی ٹانگ سے لپٹ گیا۔ گھر میں سب سو رہے تھے، ورنہ اماں کی ایک گُھوری ابا کے لیے یہ مرحلہ آسان بنا دیتی۔ چار ناچار مجھے ساتھ لیا اور پھر یہ ساتھ چلتا رہا۔

جہدِ حیات نے ابا کو مضبوط اعصاب کا مالک بنا دیا۔ لاہور میں ان کے معمول کوئی معمولی نہ تھے۔ علی الصباح پانچ بجے کی بس پر ہم لاہور کے بادامی باغ اترتے، وہاں سے کبھی پیدل بادشاہی مسجد کی گلیوں سے گزر کر شاہی محلہ سے شارٹ کٹ لیتے، تو کبھی تانگے پر بیٹھ کر بھاٹی گیٹ اتر جاتے اور سامنے اُردو بازار کو ہو جاتے۔ مکتبہ رحمانیہ کے مقبول الرحمٰن شاید پہلے دُکان دار تھے جو اپنے ٹھیے پر بیٹھتے۔ وہیں چائے کی پیالی سے دن کا آغاز ہوتا۔ ابا کتابوں کا آرڈر لکھوا کر آگے بڑھتے اور سُبک رفتاری سے سب کاموں کو سمیٹتے جاتے۔ گھر سے ہمیشہ ناشتا کر کے نکلتے تھے، صرف مجھے بھوک لگنے ہی پر انھیں دن کے کھانے کا خیال آتا۔ وارث نہاری ان کی پسندیدہ جگہ تھی، اُردو بازار کے قریب اور شیخ غلام علی اینڈ سنز کے سامنے سڑک پار۔ کھانا جلدی جلدی کھاتے، کسی سے ملاقات کا وقت طے نہ ہوتا تو پُرانی انارکلی کی نکڑ پر قلفی والے سے کھڑے کھڑے ٹھنڈی کھیر اور قلفی کا مزہ لیتے۔ وہیں سے اخبار مارکیٹ کو ہو لیتے، یہاں رسالوں اور ابنِ صفی کی عمران سیریز کا آرڈر لکھواتے اور پیسہ اخبار سے گزر کر گنپت روڈ کی پیپر مارکیٹ سے کاغذ خریدتے۔ پھر وہاب مارکیٹ کے میر پیسٹر، لوئر مال کی فوٹو سکین، سردار چپل چوک کا رشید دفتری، شعیب لیمینیشن والا اور ریٹی گن روڈ کا زاہد بشیر پرنٹنگ پریس، ابا کم وقت میں زیادہ لوگوں سے ملنے کے لیے بھاگم بھاگ کام نمٹاتے۔ تیزی سے مختلف دُکانوں سے کتابوں کی خریداری کرتے۔ کتابوں کے بنڈل اپنے کندھوں پر اٹھائے سارا سامان ایک جگہ جمع کرتے اور پانڈی کے حوالے کر دیتے۔ وہ سبھی بنڈل کارٹنوں میں پیک کر کے جہلم بلٹی کروا دیتا۔

ابا نے زندگی میں کبھی کلائی پر گھڑی نہیں باندھی۔ کام کام اور صرف کام کا پاٹھ کرنے والے کو وقت سے کیا سروکار۔ میری تھکن زدہ شکل اور باہر کا اندھیرا انھیں واپسی کی خبر دیتا۔ نکلتے ہوئے گھر کے لیے ضرور کچھ پیک کرواتے۔ رِکشا یا تانگا کرتے، داتا دربار والے رستے سے جاتے، کبھی لال کھوہ کی برفی کبھی پھل لے لیتے۔ ایک روز میری خواہش پر پھجے کے پائے بھی پیک کروا لیے۔ رات گئے گھر پہنچتے۔

ابا ایک سیلف میڈ آدمی تھے، اَن تھک محنت سے ایک مقام حاصل کیا۔ مجھے اور بھائی گگن کو بھی ہمیشہ سیلف میڈ بننے کا سبق دیا۔ تدبّر، جدّت خیالی اور طرزِ نو کو اپنانے کی ترغیب دیتے۔ آسائش کے ماحول میں محنت و مشقت کی باتیں جتنی ابا کرتے تھے شاید ہی ہمارے خاندان کے کسی گھر میں ہوتی ہوں۔ وہ ہمیں زندگی کی سختیوں اور جدوجہد کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتے رہتے۔ گرمیوں کے موسم کی شدت میں ابا کی قمیص جسم سے چپک چپک جاتی، مگر وہ خوش رہتے کہ دن بڑا ہے اور کام کرنے کا موقع خوب مل رہا ہے۔ صرف ہمیں ہی نہیں، دوسروں کو بھی محنت کی تلقین کرتے۔ بے روزگاروں کی ہمت بندھاتے اور کام یابی کا رستہ دکھاتے۔ کیا اپنے کیا پرائے، کتنوں کی پشت بانی کی۔ انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔

پنجابی کی ایک مثل ہے، ’’ملّاح دا حُقّہ سدا ای سُکّا‘‘ (ملّاح کا حُقّہ پانی سے محروم ہی رہتا ہے) اور یہ مثل اکثر درست دیکھی گئی ہے۔ ابا کچھ پُرانے اداروں کو رُو بہ زوال ہوتے دیکھ رہے تھے۔ انھیں لگتا تھا اور شاید یہ درست بھی ہو کہ ان اداروں کے وارثان کو کتاب سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ کوئی بے یار و مددگار رہا تو کسی کے جانشین اپنے آبا کی میراث کو اپنے شوق کی بھینٹ چڑھا گئے۔

امر شاہد کی اپنے والد پر تالیف و تشکیل کردہ کتاب: ’’شاہد حمید: اے عشقِ جنوں پیشہ‘‘

یہاں مجھے ابا دُور اندیش اور ہوشیار باپ محسوس ہوئے۔ گھر میں اماں سے لے کر سبھی بچوں کو کتابیں پڑھنے پر لگا دیا۔ نصاب کی کتابوں پر تو کبھی سوال نہ اٹھا، مگر یہ ضرور پوچھتے، فلاں رسالہ آیا تھا، فلاں کتاب لایا تھا، کس کس نے اور کیا کیا پڑھا۔ میرے مطالعے کی دُنیا تعلیم و تربیت، نونہال، جگنو اور بچوں کی دُنیا سے ہوتی ہوئی شکیل عادل زادہ کے سب رنگ اور سسپنس، سرگزشت، جاسوسی ڈائجسٹ تک بڑھتی گئی اور کبھی تو بہنوں سے چُرائے ہوئے خواتین ڈائجسٹ، شعاع اور کرن بھی نہ چھوڑتا۔ پھر ابن صفی، شفیق الرحمٰن، پطرس بخاری سے ہوتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی، مختار مسعود اور ابوالکلام آزاد کی نثر کے شیدائی ہونے تک ہم کتابی کیڑے ہو چکے تھے۔ ابا کی دُکان پر بھاگ بھاگ کر جاتے، ہر چکر میں کتابیں اٹھا لاتے، نہ آگ کا دریا نہ ڈوب کر جانا، گھر میں ایک کونا اپنی کتابوں کا بنا لیا، کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ کوئی کتاب پسند آ جاتی تو اسے کئی بار پڑھنے کا جنون سوار ہو جاتا۔

یہی تھی ابا کی دُور اندیشی۔ اپنے پیشے سے جوڑنے کے لیے انھیں کچھ کہنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ کتاب ہماری دُھن تھی، وہی دَھن کا ذریعہ بن گئی … اور کیا چاہیے تھا۔

میں اور بھائی ایک ساتھ تعلیم سے فارغ ہوئے۔ کتاب کے عشق میں مبتلا، ہم نے سیدھے ابا کی دُکان کی راہ لی۔ روایتی باپ کی طرح کان سے پکڑ کر نہیں بٹھایا، بانہیں پھیلا کر استقبال کیا۔ ہم دونوں کو اس دن کا بے صبری سے انتظار تھا۔ ٹھِیا سنبھال لیا۔ ٹھاٹ سے بیٹھتے۔ ابا کو دیکھتے جاتے اور سیکھتے جاتے۔ انھیں کبھی جھوٹ بول کر کتاب بیچتے نہ دیکھا۔ صرف اچھی کتاب کی تعریف کی، گاہک کا اعتماد ان کے لیے اہم ہوتا تھا۔ اکثر گاہکوں کو کہتے سنا، ’’انکل! اپنی پسند سے کوئی بھی کتاب دے دیجیے۔‘‘

ہم نے دیکھا، ابا کو باہر کبھی دوست بنانے یا چننے کی نوبت نہیں آئی۔ وہ اپنے گاہکوں ہی سے دوستی کر لیا کرتے تھے۔ ہمیں کسی پُرانے دوست سے ملواتے تو کہتے، ’’بیٹا، ان سے ملیے، یہ میرے آپ سے بھی پُرانے دوست ہیں۔‘‘ دوستوں کی موجودی میں پاس بٹھا لیتے، ان کا تعارف کرواتے اور گفتگو میں شریک کر لیتے۔ کسی کتاب کا ذکر آتا تو ہم بھی اپنا علم جھاڑتے، ’’فسانۂ آزاد‘‘ … جی وہ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ضخیم ناول۔ ’’باغ و بہار‘‘ … وہ جو میر امن دہلوی نے فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی تھی۔ ’’آب حیات‘‘ … جو مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف ہے، جس میں کلاسیکی شاعروں کا تذکرہ ہے۔ ابا کے دوست حیران ہوتے اور ہم مسکرا کر ’’چوڑے‘‘ ہوئے جاتے۔ آہستہ آہستہ ان کے دوست ہمارے دوست ہوتے چلے گئے۔ ابا کو اس پر بڑا فخر ہوتا۔ وہ دوستوں سے جب کہتے، ’’جہاں میں تھک گیا وہاں مجھے جوان خون مل گیا‘‘ سُن کر ہمیشہ ہمیں اپنی خوش بختی پر رشک آتا۔

یاد نہیں پڑتا، ابا کو کتاب کے علاوہ کسی چیز کا نشہ ہو۔ ہاں دوستوں کے ساتھ سگریٹ پیتے تھے، پھر ایک دن یہ کہہ کر ترک کر دی کہ اگر میں پیتا رہا تو بیٹے بھی پئیں گے۔

ہم دونوں پر بہت بھروسا کرتے تھے۔ معمولی سے معمولی بات پر سراہتے۔ کام یابی پر خوش ہوتے۔ سکول کے دنوں کا قصہ ہے، ہمارے پرنسپل ابا سے انعامی مقابلوں کے لیے کتابوں کی خریداری کو آئے۔ چند سبق آموز کتابیں سامنے رکھ دی گئیں۔ انھوں نے اول، دوم، سوم انعامات کے لیے کتابیں منتخب کیں اور الگ الگ گفٹ پیک بنانے کا کہا۔ کتابیں لے کر جانے لگے تو ابا نے کہا، ’’سہیل صاحب! دیکھیے گا، ان میں سے کچھ کتابیں لوٹ کر یہیں آئیں گی۔‘‘ ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ بھائی گگن تقریری مقابلے میں اوّل آئے تھے۔

ابا روایتی باپ نہیں تھے، وہ ہمارے ساتھ ایک دوست کی طرح رہتے تھے۔ زمانے کی اونچ نیچ بڑے پیار سے سمجھاتے۔ مشورے دیتے بھی اور لیتے بھی۔ کاروبار میں بہت سی تبدیلیاں ہمارے لیے کی گئیں۔ دُکان کے پیچھے ایک دُکان کب سے بند پڑی تھی۔ اسے کمپیوٹر رُوم بنا دیا۔ ماہر کمپوزر، پروف ریڈر اور خطاط بٹھا دیے گئے۔ مجھے یاد ہے، اس وقت سسٹم پینٹیم ٹو نیا نیا آیا تھا۔ ونڈوز 98 کا زمانہ، اُردو ٹائپنگ کے لیے پہلا سافٹ ویئر ’خطاط‘ استعمال کیا۔ وہ فلاپی ڈِسک سے چلتا تھا۔ پھر ’گلوبل‘ اور ’ان پیج‘ آ گئے۔ ہم دونوں بھائی زیادہ وقت یہیں بِتانے لگے۔ گیمز کھیلنے کے ساتھ ساتھ مائکروسافٹ ورڈ اور اِن پیج پر ٹائپنگ کی پریکٹس کرتے۔ سپیڈ کا مقابلہ کرتے۔ کمپیوٹر سے رغبت بڑھنے لگی۔ اُردو بازار لاہور کے دوروں کے ساتھ ہال روڈ کے رفیع پلازا اور گُل برگ میں حفیظ سنٹر کے چکر لازم ہوتے چلے گئے۔ کمپیوٹر یا پرنٹر میں کوئی خرابی ہو جاتی تو ٹیکنیشن کے سر پر کھڑے ہو کر ٹھیک کرواتے۔ سافٹ ویئر سے ہارڈویئر کو سمجھنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔

کمپیوٹر کے ذریعے کتاب بنانے کے لوازمات میں میری دل چسپی بڑھنے لگی۔ ڈرائنگ بچپن سے اچھی تھی۔ کارٹونز اور سکیچز بنانے کا شوق گرافک ڈیزائننگ کی طرف لے آیا… اور یہ شوق مجھے لاہور لے آیا۔

گرافک ڈیزائننگ کا شارٹ کورس، ملٹی میڈیا انجینئرنگ، اُردو بازار کے پھیرے، پرنٹنگ پریس میں چھپائی کے انتظامات، سب ایک ساتھ چلنے لگا۔ کالج اور کاروبار کے علاوہ تیسرا کوئی شوق فریق نہ بن سکا۔ ابا کو اب لاہور آنے کی ضرورت نہ رہی۔ کتابوں کی خریداری سے چھپائی تک سبھی کام ہو جایا کرتے تھے۔ پیچھے بھائی گگن جہلم میں بک کارنر کو اگلی منزلوں تک پہنچانے کی تیاریوں میں سرگرداں تھے۔

فلیش بیک میں چلتے ہیں۔ انیس سو ستر میں ابا نے ’’انصاف لائبریری‘‘ کے نام سے آنہ لائبریری قائم کی۔ کالج کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ تین سال تک اسے پروان چڑھایا۔ خود بھی پڑھتے، لوگوں کو بھی پڑھاتے۔ کتاب پر اپنی رائے دیتے اور خوبیاں اس انداز سے بیان کرتے کہ لوگ خریدنے کی خواہش کرتے۔ انیس سو تہتر میں لائبریرین سے کتب فروش بن گئے۔ مین بازار میں نکڑ والی دُکان لے لی، نام رکھا ’بک کارنر‘۔ ہر گھر میں ہوگا کتابوں کا ایک کونا، یہی سلوگن اور مشن تھا۔ منافع کم اور بِکری زیادہ پر یقین رکھتے۔ سستے داموں کتابیں دیتے، مجبوری میں بے مول بھی دے دیا کرتے۔ قصہ کوتاہ، پڑھنے پڑھانے کا شوق چھاپنے کی سٹیج پر لے آیا۔ پہلی کتاب انیس سو اَسّی میں شائع کی۔ دینی کتب، بچوں کا ادب اور فکشن میں پریم چند، عصمت چغتائی، گلشن نندا، واجدہ تبسم اور کرشن چندر کی کتابیں شائع کیں۔ شادی، بچے، تعمیرِ مسکن اور اس کے بعد … دور آیا پرنٹنگ پریس کا۔ ابا نے گھر کےنقشے میں بیسمنٹ اسی مقصد کے لیے رکھا تھا۔ زندگی کی جمع پونجی سے بیش قیمت اور جدید مشینری منگوائی گئی۔ دل اور جیب کی گہرائیوںسے بک کارنر کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے کے لیے ایک نئے ولولے سے ’’فرینڈز پرنٹرز‘‘کے نام سے شان دار پرنٹنگ پریس لگایا۔ مگر چھپائی کا کام ٹھیک سے شروع نہ ہو پایا تھا کہ دریائے جہلم میں طغیانی آ ئی اور جہلم شہر میں سیلاب۔ جان و مال کا کثیر نقصان ہوا، سَن بانوے کا سیلاب کسی کو نہیں بھولتا۔ پریس کے لیے لگائی گئی مشینیں بھی پانی کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ سن چھیانوے تک پریس چلانے کی کوشش کی۔ بے ایمان لیبر کے قصے الگ ہی ہیں۔ چلیے، ایک سناتا ہوں۔ مشین مین لاہور کا تھا، ہفتہ بھر کام کر کے ہر اتوار وہ چھٹی پر چلا جاتا، جاتے جاتے چھپائی میں استعمال ہونے والی روشنائیوں کے ڈبے بھی لے اُڑتا۔ بہت کچھ غتربود ہوا۔ ایک روز رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ ندامت کوسوں دُور تھی، کہنے لگا، ’’صاحب! غلطی آپ کی ہے، آپ نے کوئی سپروائزر نہیں رکھا، جو ہم پر نظر رکھتا۔‘‘

ابا ہر کسی پر اعتماد کرنے والوں میں سے تھے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ انسان کو عقل بادام کھانے سے نہیں دھوکا کھانے سے آتی ہے۔ مشین مین چلا گیا، لوٹ کر نہ آیا۔ پریس بند، تہ خانے کو تالا لگ گیا۔ اب ساری توجہ بک کارنر کو دینے لگے۔

ابا سوچتے تھے، گاڑیوں کا شوروم بن سکتا ہے، جوتوں کا شوروم ہو سکتا ہے، کتابوں کا کیوں نہیں۔ ان کی سوچ کو سمت اور خواب کو تعبیر ملنے والی تھی۔ بیٹوں نے کاروبار سنبھال لیا۔ اب ایک بیٹا (امر) لاہور سےپڑھ کر لوٹ رہاتھا، دوسرا بیٹا (گگن) اُن کے خواب کی تعبیر ہونے جا رہا تھا۔

گھر کے اسی تہ خانے میں جہاں کبھی پرنٹنگ پریس کا خواب پورا ہو کر بھی ادھورا رہ گیا، وہیں اب ’بک کارنر شوروم‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہ جگہ مین بازار والی پُرانی ’بک کارنر‘ سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔ شہر کے وسط میں اقبال لائبریری کے سامنے والی گلی میں۔ وہی ’اقبال لائبریری‘ جو تقسیم سے قبل ’لالہ لاج پت رائے لائبریری‘ ہوا کرتی تھی۔ سابق بھارتی وزیراعظم اِندر کمار گجرال کے والد اوتار نرائن تحریکِ آزادی کے متحرک رہ نما، لالہ لاج پت رائے کی تعلیمات اور سرگرمیوں سے بے حد متاثر تھے۔ 1931ء میں اوتار نرائن جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے لالہ لاج پت رائے کی یاد میں اس جگہ پبلک لائبریری تعمیر کروائی۔ متنوع موضوعات کے ساتھ ہر دھرم کی کتابیں یہاں رکھی گئیں۔ جہلم کے دل میں علم کا مخزن بن گیا، مشاعرے ہونے لگے، تقریبات منعقد ہوتیں، شہریوں کے لیے وقت گزاری کے لیے اس سے اچھی جگہ بھلا کیا ہوتی۔ بانوے کا سیلاب آیا، کتابیں دریا بُرد ہوئیں یا کسی کے سپرد، کوئی نہیں جانتا۔ ریکارڈ میں درج چالیس ہزار کتابیں چار ہزار رہ گئیں۔ وقت کی گردشوں میں جہلم کا یہ تاریخی مقام کھنڈرات سے بھی بدتر ہو گیا۔ محکمۂ اوقاف نے اس عمارت کو خطرناک اور مخدوش قرار دے دیا۔ صحن میں جھونپڑیاں اور برآمدے گھوڑے گدھوں کے اصطبل بن گئے۔ اس تاریخی ورثے کی زبوں حالی پر گریہ کرنے والوں نے عین سامنے ’بک کارنر شوروم‘ کے کھلنے پر جشن منایا۔ لوگ مبارک باد دیتے اور کتب بھی خرید کرتے۔ جہلم کی علمی شخصیت حکیم شان احمد صابری پہلی بار شوروم پر تشریف لائے تو دیکھ کر کہا، ’’واہ، کیا کہنے، ایک باب العلم بند ہوا تو دوسرا کھل گیا۔‘‘

مَیں اور بھائی اپنی دو ہزار مربع فٹ کی سلطنتِ دانش پر فقیرانہ کُرسی نشین ہو گئے۔ قلب میں بیٹھک کو کشادہ جگہ دی گئی۔ یہاں کوئی صاحب بھی بیٹھ کر کتاب پڑھ سکتے تھے۔ ابا نے اپنے گاہکوں کو یہاں بھیجنا شروع کر دیا۔ خریدار کتاب دریافت کرتے، ابا انھیں شوروم کارستہ دکھا دیتے۔

شوروم کا دامن فراخ تھا۔ ایک روز ابا سے کہا، کیوں نہ ساتھ ایک کافی شاپ بنا لی جائے، کتابوں کے لیے آنے والے چائے پیسٹری بھی ضرور خریدیں گے۔ فرمایا، بیٹا، ہمیں خود کسٹمر کی چائے بسکٹ سے تواضع کرنی چاہیے۔ ان لوگوں کا شکرگزار ہونا چاہیے جو اس پُرفتن زمانے میں کتاب سے جی لگا رہے  ہیں۔

وقت بیتا، بک کارنر کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے کا آرام دہ سفر کرنے والے بک کارنر کی یاترا کے لیے جی ٹی روڈ کا رستہ طے کرنے لگے۔ امجد اسلام امجد اپنی دختر سے ملنے اسلام آباد جاتے تو واپسی پر اکثر قیام فرماتے، ہمیشہ کہتے، آپ کی محبت یہاں کھینچ لاتی ہے۔

زمانے کے تغیر نے علم پرور لوگوں کے لیے ہمہ گیر منصوبے سجھائے۔ بک کارنر نے ڈیجیٹل دنیا میں قدم رکھا۔ پاکستان میں گھر گھر کتابیں پہنچانے کا سلسلہ پہلی بار بک کارنر ہی سے شروع ہوا۔ ایک کال، ایک میسج، ایک کلک پر پارسل قارئین کے دروازے پر ہوتا۔ انفرادی کسٹمر ہمارے لیے زیادہ اہم ہو گیا اور ان کے دلوں میں ہمارا گھر ہو گیا۔

کاروبار دراز ہوتا گیا۔ روز بہ روز عاشقانِ کتب کا رجحان بڑھتا گیا۔ کوئی قاری کی حیثیت سے آتا، کوئی لکھاری بننے کی چاہ میں رُخ کرتا۔ ضروری تھا، بک کارنر کے دو شعبے بنا دیے جائیں۔ سَیلنگ اور پبلشنگ۔ شروع سے کتاب کی تزئین، زیبائش، ایڈیٹنگ اور طباعت میری توجہ کا مرکز رہی۔ شوروم کے پہلو ہی میں اپنا الگ گوشہ بنایا اور خلوت نشین ہو گیا۔ یہ کام تنہائی کے ساتھ عرق ریزی اور جگر سوزی کا طلب گار ہوتا ہے۔ کتابوں کو اپنے رنگ اور ڈھنگ سے شائع کیا۔ اُردو کلاسیکی اور عالمی ادب شروع سے پسندیدہ تھے، اس لیے ان پر زیادہ توجہ رہی۔ کوئی بھی کتاب چھپ کر آتی، سب سے پہلے ابا کو دکھاتا۔ ان کی شاباشی سے سیروں خون بڑھ جاتا۔

سَیلنگ اور مارکیٹنگ کی تمام ذمے داریاں بھائی نے سنبھال لیں۔ شوروم کو اپنی فہم و فراست سے چلایا۔ بک کارنر شوروم کو نئی بلندیوں پر لے گئے۔ شوروم کی کام یابی اور بہترین کتابوں کی اشاعت نے آپس ہی میں مقابلے کی فضا بنا دی۔ بک کارنر بہ مقابلہ بک کارنر ہو گیا۔ دونوں شعبے ایک دوسرے کی طاقت بن گئے۔ شوروم کی کام یابی سے پبلشنگ کو تقویت ملتی، دوسری طرف دیدہ زیب اشاعت سے آن لائن سٹور اور شوروم پر بک کارنر کی کتابیں تیزی سے بیسٹ سیلر ہونے لگیں۔ قارئین کی آرا اور اطمینان ہمارا حقیقی سرمایہ اور نظریہ ہوگیا۔ نام ور ادیبوں اور صحافیوں سے داد ملتی تو سب سے پہلے اباکو بتاتے۔

ابا نے اپنی زندگی میں ابنِ صفی اور شکیل عادل زادہ سے بےپناہ محبت کی ہے۔ شکیل عادل زادہ کی مدیرانہ صلاحیتوں اور طباعت کو اپنا معیار بنانے کی تلقین کرتے۔ عاشقِ سب رنگ حسن رضا گوندل کی نگہِ التفات سے حضرت شکیل عادل زادہ سے رابطہ اُستوار ہوا۔ ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ کی کتابوں کو سلسلہ وار شائع کرنے کا معاہدہ طے پایا۔ اُس روز ابا کے چہرے کی بشاشت اور ان کے مسرّت آمیز الفاظ مجھے کبھی نہیں بھولتے۔

’’شاہد حمید: اے عشقِ جنوں پیشہ‘‘ کے لیے شکیل عادل زادہ کا پیش لفظ

نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں

آنہ لائبریری کا عہد بھی شامل کیا جائے تو ابا نے ادارے کو اپنی عمر کے پورے پچاس برس دیے۔ کتاب کے علاوہ اور کوئی مشغلہ نہ تھا۔ دُکان سے گھر اور گھر سے دُکان۔ جہلم سے باہر بھی کم کم جاتے۔ لاہور اور کراچی بک فیئر کا انعقاد ہوتا تو ہماری کوشش ہوتی کہ ایک دن ابا ضرور آئیں۔ مگر وہ ٹال جاتے۔ میلا لُوٹنے اور ہمارے لَوٹنے پر انھیں بڑی سکرین پر بک فیئر اور تقریبات کی تصاویر دکھاتے۔ خوشی کا اظہار کرتے اور دعائیں دیتے۔

میں کہتا، ابا، اب آپ اپنے معمول میں تھوڑی تبدیلی لائیے۔ شہر سے باہر نکلیے، ملک سے باہر جائیے، دُکان پر کسی ملازم کو بٹھا دیجیے۔ اس بات پر کبھی سنجیدہ نہ ہوتے۔ شرارتاً کہتے، ’’مجھ سے پہلی سی محبّت میرے محبوب نہ مانگ‘‘۔ میں ہنس دیتا، مگر ضد نہ چھوڑتا، ’’چلیے، ہفتے میں ایک آدھ چھٹی ہی رکھ لیجیے۔‘‘ یہاں انھوں نے ’آدھ‘ کو پکڑ لیا، یعنی جمعے کے روز آدھا دن دُکان پر جاتے اور آدھا دن گھر گزارتے۔

جسمانی طور پر فٹ تھے، ڈاکٹر کے پاس جانے سے ہمیشہ کتراتے۔ صبح سویرے جاگنے کے عادی تھے۔ صفائی پسند، نفاست پسند طبیعت تھی، نہائے بغیر گھر سے نہ نکلتے۔ گھر داخل ہوتے ہی نگاہ دوڑاتے اور ذرا سی دُھول پر بھی نگاہ پڑتی تو فوراً کہتے کہ آج صفائی صحیح نہیں ہوئی۔ رات کو سب ایک ساتھ کھانا کھاتے، کسی ایک کی عدم موجودی میں بھی کھانا شروع نہ کرتے۔ اماں کے ہاتھ کا کھانا انھیں بے حد پسند تھا۔ خاص طور پر گوشت اور کریلے۔ کریلوں اور ساگ کو تو وہ شاہی ڈش کہتے تھے۔ زود ہضم پکوان کو ترجیح دیتے۔ پتلا شوربہ مرغوب غذا تھا۔ کھانے کی میز پر چھوٹے بڑے سب سے دن بھر کی رُوداد سنتے۔ سونے سے پہلے ٹہلنے ضرور جاتے۔ تیز تیز چلنے کی عادت تھی، لیکن راہ میں کوئی مل جاتا تو اُس کی خیریت پوچھتے۔ ہم دونوں ساتھ ہوتے اور دن بھر کی مصروفیات شیئر کرتے۔

تصویر کھنچوانے سے بچتے تھے۔ فلم دیکھنے کے شوقین تھے۔ وی سی آر کے زمانے میں کیسٹوں (VHS Tapes) کی گھر میں ایک بڑی کولیکشن جمع کر رکھی تھی۔ تاریخی فلمیں دیکھنا زیادہ پسند تھا۔ اینتھنی کوئین (Anthony Quinn) کی ’دی لائن آف دی ڈیزرٹ‘ (عمر مختار)، ’دی میسج‘، ’لارنس آف عریبیہ‘، ’زوربا دِی گریک‘ کے علاوہ حضرت موسیٰ ؑکی زندگی پر مبنی ’دی ٹین کمانڈمنٹس‘، اداکارہ الزبتھ ٹیلر کی ’قلوپطرہ‘ اور کے آصف کی ماسٹر پیس بھارتی فلم ’’مغل اعظم‘‘ جسے بار بار دیکھنے سے بھی کبھی جی نہ بھرتا۔ اداکاروں میں دلیپ کمار واحد عشق تھا۔ لکھاریوں میں کرشن چندر، ابن صفی، شفیق الرحمٰن، جمیلہ ہاشمی، قدرت اللّٰہ شہاب، مختار مسعود اور مشتاق احمد یوسفی کو زیادہ پڑھا۔ شاعری میں انھیں غالب، فیض اور ساحر کا کلام پسند تھا۔ گلوکاروں میں نورجہاں، مہدی حسن اور جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غزلیں سنتے۔

ایک روز ہندوستان سے گلزار صاحب کا فون آیا۔ باتوں باتوں میں ابا سے پوچھا، ’’شاہد بھائی، آپ کے لیے کچھ بھیجنا چاہتا ہوں، کچھ پسند ہو تو بتائیے۔‘‘ ابا نے کہا، ’’آپ کی اور ہماری ایک مشترکہ محبّت ہے، جگجیت سنگھ، حیات ہوتے تو کہتا، ان کی آواز سنا دیجیے۔‘‘ گلزار صاحب نے ہائے کہہ کر فون تو بند کر دیا۔ مگر چند ہفتوں میں ہندوستان سے ایک پارسل آ گیا۔ بھیجنے والے کا پتا لکھا تھا، ’’گلزار، بوسکیانہ، ممبئی، انڈیا‘‘۔ نفاست سے کی گئی پیکنگ کو جلدی سے چاک کیا۔ ہاتھوں میں ایک ضخیم اور پُرشکوہ کتاب تھی، ’’جگجیت سنگھ، لیرکس آف اے لیگیسی‘‘۔ پہلے صفحے پر گلزار صاحب کے حسین دست خط نقش تھے اور لکھا تھا، ’’محترم شاہد صاحب، آپ کی خدمت میں۔ گلزار۔ 18-1-2015‘‘۔ ابا نے کتاب دیکھ کر چوم لی۔ جہاں چوما وہاں جگجیت اور گلزار دونوں کے نام لکھے تھے۔ ابا کو کبھی گلزار کی لکھی غزلیں جگجیت سنگھ کی آواز میں سننے کی خواہش ہوتی تو کہتے، ’’گُل جیت کے ٹریک لگا دو۔‘‘ ہم مسکراتے اور سمجھ جاتے۔

ابا نے ہم دونوں بھائیوں سے ساری زندگی ٹوٹ کر محبّت کی ہے۔ کیا ہم پیالہ و ہم نوالہ، یہاں تو بات ہم پیشہ، ہم ذوق، ہم راز اور ہم دمی کی تھی۔ ہاںگھر جاتے ہی ابا بدل سے جاتے۔ بیٹیوں سے آگے کوئی نظر نہ آتا۔ سحر، حنا، رُخسار، میںنے کبھی تینوں کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ پاپا مجھے زیادہ چاہتے تھے۔ سب کو برابر توجہ ملی، خوب لاڈ ملا۔ اپنے دامادوں کے دوست تھے۔ پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں اُن کی جان تھے۔ کہا کرتے، ’’اصل سے سُود زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘ بچوں کی بے جاحرکتوں پر سرزنش ضرور کرتے، مگر اُچھل کود اور شور شرابے کو کبھی نہ دباتے۔

کورونا وبا کے دنوں میں انھوں نے اپنے کئی پُرانے دوستوں کو کھو دیا، بہت دُکھی رہنے لگے۔ پُرانی دُکان، جسے اب ہم ان کی بیٹھک کہتے تھے، میں گھنٹوں یک رُخ بیٹھے پڑھتے رہتے۔ میں کبھی حاضر ہوتا تو اُنھیں احساس تک نہ ہوتا۔ اندازہ نہ کر پاتا، جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں۔ ایک ہی واقعہ کے کئی لوگ راوی ہیں، ’’ہمیں جو کتاب چاہیے ہوتی، چپکے سے اٹھاتے، پیسے رکھتے اور لوٹ آتے۔ ان کے آرام میں خلل نہیں چاہتے تھے۔‘‘

سفر حجاز کے بعد چہرے پر داڑھی رکھ لی اور سر پر ٹوپی چڑھا لی۔ کندھے جھک گئے، چلنے کی رفتار ماند پڑ گئی۔ نحیف بدن، سُست قدم، مضطرب سے رہنے لگے۔ پاؤں میں چوٹ آئی تھی، خون میں شکر بڑھ رہی تھی۔ ہمیشہ جیب میں چاکلیٹس اور ٹافیاں رکھتے۔ بے احتیاطی کی وجہ سے میں ان سے خفا ہوتا۔ کہتے، بچوں کے لیے رکھتا ہوں۔ بعد میں بازار کے ساتھیوں سے معلوم ہوا، مسجد میں بچوں سے باتیں کرتے تھے، کسی کارنامے پر خوشی سے ٹافیاں دیتے تھے۔ ڈاکٹر سے روٹین چیک اَپ کے دن ہمیشہ بحث ہوتی۔ بچوں کی طرح ضد کرتے اور جانے سے احتراز برتتے۔

ایک روز ابا کو طبیعت بوجھل محسوس ہوئی۔ خود ہی کہا، آج دُکان پر نہیں جاؤں گا۔ آرام کروں گا۔ ہم تو یہی چاہتے تھے۔ سارا دن گھر پر رہے۔ اگلے روز بھی نہیں گئے تو تشویش ہوئی۔ پوچھا، ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ کہا، ابھی ہمت نہیں، شام تک بہتری نہ ہوئی تو چلیں گے۔ میں آفس آ گیا، پر دھیان سارا پیچھے لگا رہا۔ دن کو اماں کو فون کر کے پوچھا تو بتایا کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ اب زور زبردستی کا وقت آ چکا تھا۔ چلنے میں دشواری تھی، اٹھا کر وھیل چیئر پر بٹھایا اور گاڑی میں ہسپتال لے آئے۔ ریپڈ ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہوا، جگر شدید متاثر ہے، اندرونِ جسم خون کے ضائع ہونے کے سبب بے ہوش ہو رہے ہیں۔ خون کا بندوبست کرنا ہو گا۔ سمجھنے میں دیر لگی کہ حالت سنگین ہے۔ زندگی کی بھاری اور طویل شب، تفصیل سے لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے، اپنی آنکھوں کے سامنے زندگی سے ہارتے ہوئے دیکھا۔ دل کا دورہ پڑا اور چند ہی لمحوں میں ہنگاموں بھری زندگی کے بعد وہ آرام سے سو رہے تھے۔ عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا۔

دُکھیے دی گل دُکھیا ای جانے، سُکھیے نُوں کیہ خبراں
سَجن جِنھاں دے موت نے مارے، روندے تک تک قبراں

ابا کو سپردِ خاک کیے دو روز گزرے تھے۔ گلزار صاحب کا فون آیا۔ انھیں گل شیر بٹ سے خبر ہوئی۔ وہ اپنے دوست کے جانے پر آزُردہ تھے، کہنے لگے، ’’امر، میرا ایک کام کرو گے؟‘‘
میں نے کہا، ’’جی، حکم کیجیے!‘‘
’’ابا کی قبر پر جاؤ تو میری طرف سے ماتھا ٹیک دینا، میں سمجھوں گا میں نے اپنے دوست کو الوداع کہہ دیا۔‘‘

ہو اگر خودنِگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے

ابا فوت نہیں ہوئے، بس دُور ہو گئے۔ اپنا اور جہلم کا نام بھی روشن کر گئے۔ ایسے شخص کی عاقبت بہتوں سے یقیناً بہتر ہو گی۔ مئی انیس سو اکیاون میں پیدائش اور مارچ دو ہزار اکیس میں وفات کے مطابق عمر اُن کی ستّر برس تھی۔ مگر عمروں کو برسوں کے اعتبار سے ناپنا نہیں چاہیے۔ عمر اُن کی زیادہ ہوتی ہے جو کام زیادہ کرتے ہیں۔ ابا اپنی جگرکاری اور جاں فشانی کی تابانیوں میں سدا زندہ رہیں گے۔ اُن کی محنت بک کارنر کی شائع ہونے والی ہر کتاب میں عکس ریز رہے گی۔ منٹو، فیض، یوسفی چلے گئے تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے؟ نہیں ایسا نہیں، وہ اپنے عہد میں بھی زندہ تھے، وہ آنے والے زمانوں میں بھی زندہ رہیں گے۔ یہ لوگ اپنا اپنا کردار نبھا کر چلے گئے، ہمیں بھی اپنا کردار نبھانا ہے۔

پتھر کی طرح میں نے ترا سوگ منایا
دامن نہ کبھی چاک کیا، بال نہ کھولے

مجھے ابا کے جانے کا ماتم نہیں کرنا تھا۔ ٹھیک دو روز بعد اپنے دفتر آ گیا۔ اُس روز معمول سے ہٹ کر زیادہ کام کیا۔ جانتا تھا، ابا دیکھ رہے ہوں گے، انھیں اطمینان دلانا تھا، آپ کا مشن نہیں رُکا، سب ویسا ہی ہے۔ یہ سلسلہ رُکے گا نہیں، یہ اور تیز ہو گا۔ گزشتہ تین برس میں اشاعت کی سالانہ اوسط بیس سے سو کتابوں تک ہو گئی۔ پاک و ہند کے معروف و مستند لکھاریوں کو بک کارنر سے محبّت ہے۔ اب تک ہماری ہر اشاعت پر مستند ادیبوں نے اپنے اپنے خیالات کا جس طرح سے اظہار کیا ہے وہ سب تعریفیں شاہد حمید کی تحریک اور ہمت کو سزا وار ہیں۔

ہو تم زندوں کے زندہ، تم کو مردہ کون کہتا ہے
تمھاری نیکیاں زندہ تمھاری خوبیاں باقی

والدین کے ساتھ گزرا ہوا وقت ہر اثاثے سے بڑھ کر قیمتی ہوتا ہے۔ اس کا احساس ابا کے جانے کے بعد ہوا۔ برسی پر ہر سال ہم بھائی بہن اماں کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور ان کی یاد کو سیلیبریٹ کرتے ہیں۔ ابا کی پسند کے پکوان بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ان کے قصے سناتے ہیں، ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں۔

اب بھی تنہا تو نہیں ہوں کہ ترے بعد یہاں
ایک میلا تری یادوں کا لگا رہتا ہے

ابا کے دوست اب زیادہ عزیز ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنے سے ان کی یادوں کی پٹاری کھل کھل جاتی ہے۔ پڑھنے اور لکھنے والے سبھی انھیں یاد کرتے ہیں۔ جب کوئی اپنے حافظے میں ان سے وابستہ کسی یاد کو تازہ کرتا ہے تو اَش اَش کر اٹھتا ہوں۔ ان کی یادوں اور باتوں سے بے شمار لوگوں کے دل خوش ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔

ابا کو گئے آج پونے تین برس ہو گئے۔ جس مشن یا مشین کو وہ چلا گئے تھے اس نے رکنے کا نام نہیں لیا۔ ان کے بک کارنر کو پچاس برس پورے ہوئے، اگلے پچاس برس کا عزم کیے چلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اہلِ قلم حضرات نے ابا کے چلے جانے پر اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ ان کی تاریخ ساز حیثیت، ان کی تحریک اور اشاعتی خدمات کے بارے میں شاہد حمید کی کاوشوں کو سراہا اور بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ جنھوں نے بک کارنر جہلم کی مطبوعات کواپنے گھروں کی توقیر بنایا ہے، ان پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں آج اُردو کا ایسا کوئی اشاعت گھر نہیں جو اس پیشے کو معیار اور اعتبار کے اس درجے پر لاکھڑا کرے۔

اپنی تحریر کا اختتام احمد فراز کی ایک نظم پر… نظم کا یہ حصّہ شاہد حمید کی زندگی کا پَرتو ہی تو ہے۔۔۔

جو جسم کا ایندھن تھا
گلنار کیا ہم نے
وہ زہر کہ اَمرِت تھا
جی بھر کے پیا ہم نے
سو زخم اُبھر آئے
جب دل کو سیا ہم نے
کیا کیا نہ محبّت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے
لو کُوچ کیا گھر سے
لو جوگ لیا ہم نے
جو کچھ تھا دیا ہم نے
اور دل سے کہا ہم نے
رکنا نہیں درویشا
۰۰۰
یوں ہے کہ سفر اپنا
تھا خواب نہ افسانہ
آنکھوں میں ابھی تک ہے
فردا کا پری خانہ
صد شکر سلامت ہے
پندارِ فقیرانہ
اس شہرِ خموشی میں
پھر نعرۂ مستانہ
اے ہمتِ مردانہ
صد خارہ و یک تیشہ
اے عشقِ جنوں پیشہ
اے عشقِ جنوں پیشہ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp