گلگت بلتستان: سول سوسائٹی نے گندم کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ مسترد کر دیا، تحریک کا اعلان

پیر 13 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے گندم کی قیمتیں بڑھانے اور ٹارگٹڈ سبسڈی کے فیصلے کے خلاف سول سوسائٹی تنظیموں نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت متنازعہ فیصلہ فی الفور واپس لے۔

گلگت بلتستان حکومت نے حالیہ کابینہ اجلاس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والی گندم سبسڈی پر بڑے فیصلے لیے ہیں جن میں گریڈ 17 سے اوپر کے آفیسران اور آئینی عہدوں پر فائز افراد کے لیے گندم سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ مرحلہ وار دیگر صاحب استطاعت افراد کو بھی سبسڈی نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور فی بوری گندم کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کرتے ہوئے 5200 ریٹ مقرر کر دیا ہے۔

ن لیگ اور پھر تحریک انصاف کے دور میں بھی قیمتیں بڑھانے کے لیے دباؤ رہا

گلگت بلتستان میں ٹارگٹڈ سبسڈی اور قیمتوں میں اضافے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن کے دور میں بھی دباؤ رہا، پھر اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی یہ مطالبہ کیا جاتا رہا۔

وفاقی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اکنامک کوآرڈی نیشن کمیشن میں 26 مئی کو باضابطہ رپورٹ جمع کرائی تھی کہ گلگت بلتستان میں ٹارگٹڈ سبسڈی پر کام شروع ہوگیا ہے جسے جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اس دوران گلگت بلتستان میں خالد خورشید کی حکومت قائم تھی۔

اس سے قبل 2015 کے بجٹ میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کے لیے وفاقی حکومت نے 6 ارب روپے گندم سبسڈی کی مد میں مختص کیے تھے اور اس دور کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ میں شامل کرکے اسے اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

گلگت بلتستان میں وفاق کی جانب سے سیاسی و معاشی حقوق کی عدم فراہمی کے باعث اکثریت کا یہ خیال ہے کہ گندم سبسڈی سیاسی و معاشی حقوق کے متبادل کے طور پر دی جارہی ہے جسے ختم ہونے نہیں دیں گے۔

2013 گندم کی قیمتیں بڑھانے کی کوشش پر دھرنے دیے گئے

2013 میں سبسڈائزد گندم کی رقم کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے 8 روپے فی کلو سے بڑھا کر 14 روپے فی کلو کرنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف گلگت، اسکردو اور چلاس میں 12 دنوں پر محیط الگ الگ دھرنے دیے گئے جس کے نتیجے میں قیمت 14 کے بجائے 11 روپے فی کلو مقرر ہوئی اور ان مظاہروں و دھرنوں سے عوامی ایکشن کمیٹی نامی تنظیم بھی قائم ہوئی جو اب تک عوامی مسائل بالخصوص گندم سبسڈی کے معاملے پر متحرک نظر آرہی ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کے باغی گروپ کی حکومت ہے جسے فارورڈ بلاک کہا جارہا ہے جبکہ اتحادیوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام شامل ہیں۔

سابق وزیر تعلیم و موجودہ اپوزیشن رکن راجہ اعظم خان، اپوزیشن لیڈر کاظم میثم، سابق امیدواران گلگت بلتستان اسمبلی مولانا سلطان رئیس، ڈاکٹر غلام عباس، آصف عثمانی، ایڈووکیٹ ملک کفایت سمیت درجنوں سیاسی، سماجی و مذہبی شخصیات نے ردعمل دیتے ہوئے اس فیصلے کو غیرمعقول قرار دیتے ہوئے فی الفور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

گندم سبسڈی ختم کرنا عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے، آفاق احمد

نوجوان قوم پرست رہنما و عہدیدار عوامی ایکشن کمیٹی آفاق احمد بالاورنے کہا ہے کہ گندم سبسڈی صرف اور صرف گلگت بلتستان کے شہریوں کے لیے ہے جس میں کسی بھی قسم کی تفریق ممکن نہیں ہے۔ گلگت بلتستان بالخصوص ضلع گلگت میں تو آٹا ترسیل کا نظام ہی ایسا بنا ہے کہ ہمیشہ یہاں بحران رہے گا۔ سینکڑوں ایسے مقامات و ادارے ہیں جنہیں بلاجواز سبسڈی کا آٹا دیا جارہا ہے۔ ٹارگٹڈ سبسڈی کے علاوہ ایک دم گندم کی قیمت اضافہ کیا گیا ہے جو اس محروم خطے کے عوام کے ساتھ مزید ظلم کے مترادف ہے۔

حکومتی فیصلہ عوام کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے، فیضان میر

قائم مقام جنرل سیکریٹری عوامی ایکشن کمیٹی فیضان میر نے اس فیصلے کو براہِ راست عوام کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے وسائل کا استعمال اور اختیار بھی ہمارے پاس نہیں ہے، اسمبلی لولی لنگڑی ہے جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں، اس اسمبلی کے پاس صرف اپنی تنخواہ میں اضافے کے علاوہ کوئی اختیار ہی نہیں ہے ایسے میں سبسڈی کا خاتمہ علاقے میں افراتفری اور لوگوں میں مایوسی پھیلانے کا سبب بنے گا جو کسی صورت نیک شگون نہیں ہے۔

حکومت نے ایٹم بم گرایا ہے، عوام چپ نہیں رہیں گے، ابرار علی بگورو

ابرار علی بگورو نے اس فیصلے کو ناقابلِ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو معلوم ہے کہ پہلے بھی قیمتوں میں معمولی اضافے پر دھرنے ہوئے، اب تو بم گرایا گیا ہے تو لوگ کیسے چپ رہیں گے۔ یہ محض اس بات کا اعلان ہے کہ خطے کو محروم رکھنا ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی نے سہولت کاری کے علاوہ کچھ نہیں کیا، نجف علی

اسکردو سے تعلق رکھنے والے سابق امیدوار نجف علی نے کہا کہ گلگت بلتستان اسمبلی نے اس ساری صورتحال پر سہولت کاری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ یہ اعلان گندم کی قیمتیں بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے خلاف طبل جنگ بجانے کے لیے کیا گیا ہے۔

دوسری جانب صوبائی حکومت اپنے فیصلے پر نا صرف قائم ہے بلکہ عوام کو اس جانب قائل کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

حکومت نے سبسڈی ختم نہیں کی بلکہ ٹارگٹڈ کر دی ہے، ایمان شاہ

معاون خصوصی محکمہ اطلاعات ایمان شاہ کہتے ہیں کہ حکومت نے گندم سبسڈی ختم نہیں کی بلکہ ٹارگٹڈ کردی ہے۔ گلگت بلتستان کو مقامی اور امپورٹڈ 2 قسم کی گندم ملتی ہے۔ امپورٹڈ گندم گلگت ڈپو پہنچنے تک 166 روپے فی کلو جبکہ مقامی گندم جو پنجاب سے فراہم کی جاتی ہے 144 روپے فی کلو حکومت کو پڑتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت 166 روپے کلو گندم خرید کر 52 روپے میں دیتی ہے تو یقیناً کوئی غلط فیصلہ نہیں ہے۔

ایمان شاہ نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں قیمتوں میں واضح فرق کی وجہ سے گندم کی اسمگلنگ ہوتی ہے جس سے نا صرف گندم ضائع ہو جاتی ہے بلکہ سرمایہ اور توانائی بھی ضائع ہوتی ہے جو بحران کا سبب ہے۔

بی آئی ایس پی کے ڈیٹا سے غربت کی شرح معلوم کی گئی ہے

انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے سروے کا ڈیٹا موجود ہے جس میں غربت کی شرح معلوم کی گئی ہے، اسی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

ایمان شاہ نے کہاکہ غریب اور امیر کے درمیان فرق کو مٹانے کے لیے غریب کو سہولت دینا ہوتی ہے یہاں سب کو ایک ڈنڈے سے ہانکا جاتا ہے اور اکثر صرف بااثر افراد کو ہی گندم ملتی ہے۔

انہوں نے احتجاجی مظاہروں کے اعلان پر کہا کہ کچھ لوگوں کو یقیناً اس بابت تکلیف پہنچے گی لیکن عوام اب باشعور ہوچکے ہیں ان کی باتوں میں کبھی نہیں آئیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp