گلگت بلتستان: گندم کی قیمتوں میں اضافہ واپس ہونے کے باوجود ایکشن کمیٹی کا دھرنا جاری رکھنے کا اعلان

پیر 29 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر دیے گئے دھرنے کے نتیجے میں حکومت نے گندم کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سیکریٹریٹ کے سیکشن آفیسر عبد العظیم کے دستخط سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق وزیر اعلیٰ کی منظوری اور گلگت بلتستان کونسل و کابینہ اراکین کے متفقہ رائے سے گندم کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن 25 دسمبر 2023 کو جاری ہوا تھا وہ واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان کو گندم میں سبسڈی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ددی گئی تھی اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات حکومت پاکستان نے خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

https://twitter.com/engrhammad17/status/1751354671107641376

حکومتی ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے دور سے گلگت بلتستان کو ملنے والی گندم کی قیمت میں گڑ بڑ ہوئی اور گلگت بلتستان کو ملنے والی گندم کی قیمتوں کو زبانی احکامات پر منجمد کردیا گیا۔

اس صورت میں پاسکو کو قیمتوں کی ادائیگی کا نظام بھی وضع نہیں کیا گیا تھا جس کے باعث حکومت گلگت بلتستان پاسکو کی مقروض ہوتی گئی۔

بعد ازاں 2015 میں مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت نے وفاقی بجٹ میں پہلی مرتبہ گندم سبسڈی کو شامل کر لیا اور 6 ارب روپے مختص کیے جبکہ سابقہ بقایہ جات بھی ادا کردیے گئے۔

2015 میں جب گلگت بلتستان کے لیے 6 ارب روپے مختص کر دیے گئے تو اس وقت پاکستان میں گندم کی 40 کلو بوری 1300 روپے کی تھی جس کی قیمت گلگت بلتستان میں 640 روپے فی بوری مقرر کردی گئی۔

گندم سبسڈی کے معاملات اس وقت بگاڑ کا شکار ہوئے جب گندم کے لیے مختص رقم جامد رہی اور قیمتوں میں اضافہ ہونے لگ گیا۔ 2021 میں خالد خورشید حکومت نے صوبائی بجٹ سے 2 ارب روپے گندم سبسڈی میں شامل کر کے قلت کو پورا کر لیا جبکہ اگلے سال فی کلو گندم میں اضافہ کرکے 20 روپے قیمت مقرر کردی۔

اسی اثنا میں گندم کی مد میں مقرر کردہ رقم میں بھی اضافہ کرکے 10 ارب تک پہنچا دیا گیا تاہم قیمتوں میں واضح فرق کی وجہ سے مطلوبہ مقدار میں گندم فراہم نہیں کی جاسکی اور گلگت بلتستان میں 40 کلو کے بجائے 20 کلو آٹے کی فراہمی شروع کردی گئی۔

کابینہ اجلاس میں قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی گئی تھی

اب خالد خورشید کے بعد بننے والے وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان کی قیادت میں صوبائی حکومت نے دسمبر کے مہینے میں اسکردو میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی اور ابتدائی طور پر 52 روپے فی کلو تجویز پیش کی تاہم بعد ازاں اس میں تبدیلی کرکے 36 روپے فی کلو کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور موقف اختیار کیا کہ اس وقت پنجاب میں کسانوں سے 139 روپے فی کلو گندم خریدی جارہی ہے اور 150 سے زیادہ پر بیچی جارہی ہے۔

وزیر خوراک غلام محمد نے بتایا کہ قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی گندم کے معیار کو بھی بہتر کیا جائے گا، ملک بھر میں مقامی گندم اور غیر ملکی (یوکرینی) گندم برابر تقسیم کی جارہی ہے لیکن گلگت بلتستان کو 75 فیصد مقامی گندم فراہم کی جائے گی۔

حکومتی فیصلہ عوامی ایکشن کمیٹی نے مسترد کردیا

حکومت کے اس فیصلے کو گلگت بلتستان میں سیاسی، مذہبی، علاقائی اور تاجر تنظیموں پر مشتمل عوامی ایکشن کمیٹی نے مسترد کردیا اور مطالبہ کیا کہ پرانی قیمتوں کو بحال کیا جائے تاہم حکومت نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا جس کے بعد ابتدائی طور پر اسکردو اور گلگت سمیت دیگر اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے اور 27 دسمبر سے مختلف اضلاع سے گلگت کی جانب لانگ مارچ شروع کردیا گیا۔

تحریک میں شدت پیدا ہوئی تو ایکشن کمیٹی نے گندم سبسڈی کی سابقہ قیمت کو برقرار رکھنے کے علاوہ 14 دیگر مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا۔

کابینہ کا فیصلہ محض ایک نوٹیفیکیشن سے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا

عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے کوآرڈی نیٹر احسان علی ایڈووکیٹ نے بتایا حکومتی کابینہ کے فیصلے کو محض ایک نوٹیفیکیشن سے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس نوٹیفیکیشن میں تفصیلات درج ہیں کہ آئندہ گندم کی قیمت کیا ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ قیمتوں میں استحکام کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے اور طریقہ کار کیا ہوگا یہ نہیں بتایا گیا اس لیے ہم اس نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں اور دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp