پاکستانی عدالتی نظام کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں۔ اور ایک مقدمہ اپنے حتمی فیصلے تک پہنچتے پہنچتے دہائیاں لے جاتا ہے، اس وقت اور پیسے کے ضیاع کو ملک میں چند ہی لوگ جھیل پاتے ہیں اور اکثریت ناانصافی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔
نظام انصاف کی درستگی سے متعلق چیف جسٹس صاحبان کے تجزیات
پاکستان میں مختلف چیف جسٹس صاحبان نے نظام عدل کو موثر بنانے کے لئے مختلف طریقے اپنائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس کے لیے مشہور ہوئی اور اس روایت کو جسٹس افتخار چوہدری کے بعد آنے والے ایک چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اوج کمال تک پہنچایا۔ پھر سوموٹو شدید تنقید کی زد میں آیا تو میاں ثاقب نثار کے بعد آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہیوں کو نظام عدل کا اصلی ذمے دار سمجھا۔
اپنی ابتدائی تقریر میں سابق چیف جسٹس آصف سعد کھوسہ نے کہا تھا کہ میں بھی ڈیم بنانا چاہتا ہوں لیکن جھوٹی گواہیوں کے خلاف ہوں، انہوں نے کچھ جھوٹے گواہوں کو سزائیں بھی سنائیں۔ جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں فیصلے کم اور مباحثے طویل ہوتے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظام عدل کی خرابی میں کس چیز کو ذمے دار سمجھتے ہیں؟
موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی بہت سے مواقع پر مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے مقدمات کی غیر ضروری طوالت، مقدمات کے متعلقہ فورمز پر تصفیہ نہ ہونے، وکلا کے تیاری کے لیے تاریخ مانگنے، سرکاری اداروں کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
اکثر اوقات چیف جسٹس کے سامنے جب کوئی اپیل سماعت کے لیے مقرر ہوتی ہے تو وہ سوال کرتے ہیں کہ یہ اپیل سالوں بعد سماعت کے لیے کیوں مقرر ہوئی۔ وہ درخواست گزار سے سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے کوئی جلد سماعت کی درخواست دی۔ اور اگر نہ دی ہو تو اس آبزرویشن کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہیں۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے میں 10 نومبر کو اپیلوں کی سماعت کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس روز کی سماعت کے آرڈر میں لکھا کہ ’3 سال 8 ماہ گزرنے کے بعد اپیل کا سماعت کے لیے مقرر ہونا بدقسمتی ہے، عدالت کے بروقت اقدام نہ کرنے کا نقصان کسی بھی سائل کو نہیں ہونا چاہیے، چیمبر احکامات کے باوجود اعتراضات کے خلاف اپیل مقرر نہ ہوئی اور درخواست گزار کا انتقال ہوگیا‘۔
سب ادارے اپنا کام کریں
پنجاب میں انتخابات التوا مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ سب ادارے اپنے اپنے آئینی دائرہ اختیار میں کام کریں، ہم کسی ادارے کا کام نہیں کریں گے بلکہ ان اداروں سے کام کروائیں گے۔ چیف جسٹس آئین اور آئینی دائرہ اختیار کے بارے میں اکثر بات کرتے اور آئین پر عمل درآمد کے لیے زور دیتے ہیں۔
جب مقدمے کی تیاری نہ ہونے پر وکلا کو سرزنش کا سامنا کرنا پڑا
فیض آباد دھرنا کیس میں پیمرا کے وکیل نے جب عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ابصار عالم کا جواب نہیں پڑھا تو اس بات پر انہیں اس قدر سرزنش کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے اپنا وکالت نامہ ہی واپس لے لیا۔
اسی طرح سے 20 ستمبر کو ورکرز ویلفیئر فنڈ ترامیم کے خلاف درخواستوں پر جلد سماعت کی استدعا منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے وکیل کی تیاری نہ ہونے پر سرزنش کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنی ہیں تو کرلیں پھر ہم آپ کو جرمانہ کریں گے۔
جب وکیل کو تاریخ نہ ملی
حال ہی میں ٹاپ سٹی مقدمہ جس میں رئیل اسٹیٹ پراجیکٹ کے مالک نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات عائد کیے، چیف جسٹس نے وکیل کو التوا دینے سے انکار کر دیا اور ان سے کہا کہ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کے لیے آئیں اور آج ہی فیصلہ کریں گے، ’آپ نے جو تیاری کرنی ہے اسی وقفے میں کر لیں اور پھر اسی دن وہ مقدمہ نمٹا دیا گیا‘۔
جب سپریم کورٹ نے مقدمے کی ڈرافٹنگ درست نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا
24 اکتوبر کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے درخواستوں کی ڈرافٹنگ صحیح نہ ہونے پر پاکستان بار اور پنجاب بار کو نوٹس جاری کر دیے۔ عدالت نے بار کونسلز سے تحریری جواب مانگا کہ بتائیں پنجاب کے لا کالجز میں ڈرافٹنگ سکھائی جاتی ہے یا نہیں۔
پنجاب میں زمین کی تقسیم کے تنازع سے متعلق ایک مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کی درخواست واضح نہ ہونے پر سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ درخواست میں استدعا ہی درج نہیں ہے، پنجاب کے وکیل دعویٰ لکھنا کب سیکھیں گے، کیا پنجاب کے تمام لا کالجز بند کر دیں؟ عرضی نویس سے دعویٰ مرتب کروایا جاتا ہے، بتائیں کیا قانون عرضی نویس سے دعویٰ مرتب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ وکیل صرف عدالت میں کھڑے ہو کر دلائل دے گا؟۔ وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ دعویٰ لکھ کر اس کی تصدیق کر کے جمع کرائے۔
جب وکلا کی عدم تیاری، مقدمات کی غیر ضروری طوالت پر جرمانے عائد کیے گئے
آج ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے 9 مرلہ زمین پر مالک کو بغیر معاوضہ ادائیگی روڈ بنانے پر حکومت پنجاب پر 10 لاکھ روپے جرمانہ کردیا۔
عدالت نے جرمانے کی رقم بھی زمین مالک کو ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو 30 دن کے اندر زمین کی موجودہ ریٹ کے مطابق رقم ادائیگی کا بھی حکم دے دیا۔ فضول مقدمہ دائر کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایڈشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی سرزنش بھی کر دی۔
10 نومبر کو مقدمات کو غیر ضروری طوالت دینے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے درخواست گزار کو 10 لاکھ روپے جرمانہ کر دیا اور ریمارکس دیے کہ مقدمات کو جان بوجھ کر دیر تک چلانا وطیرہ بن گیا ہے، سارے عدالتی نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے، آہستہ آہستہ تمام معاملات کو بہتر کریں گے، اس مقدمے میں درخواست گزار جاوید حمید نے زمین ملکیت کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
26 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 34 سال بعد بھانجی کو ماموں سے 5 مربع زمین کا فوری قبضہ فراہم کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ماموں سردار منصور کو قانونی چارہ جوئی کے تمام اخراجات بھانجی کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
21 ستمبر کو ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو 5 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔ جرمانہ پراپرٹی کے کیس میں عدالت کا وقت ضائع کرنے پر کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے متعلقہ دستاویزات کی طرف پوائنٹ کرنے کے بجائے عدالت کا وقت ضائع کیا اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ جرمانے کی رقم اپنی مرضی کے خیراتی ادارے میں جمع کرا کے رسید پیش کریں۔