جنوبی کوریا کو شمالی کوریا سے حماس طرز کے حملوں کا خدشہ کیوں ہے؟

منگل 14 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی پچھلے دنوں اپنے گھر عشائیہ پر میزبانی کرتے ہوئے جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے اپنے امریکی مہمان کو شمالی کوریا کے کسی بھی قسم کے حملے، بشمول حماس کی طرز کے ہتھکنڈوں سے مشابہہ حیرت انگیز حملوں، کے خلاف چوکس رہنے کا مشورہ دیا تھا۔

7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کے بعد سے جنوبی کوریا کے سیاست دانوں اور دفاعی سربراہوں نے شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریا کیخلاف ممکنہ جارحیت کے پس منظر میں اپنی مخاصمت کا حماس اور اسرائیل کے مابین جنگی موازنہ کرنا شروع کردیا ہے۔

گزشتہ ماہ جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پیونگ یانگ مستقبل میں سیول کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے تو ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر شمالی کوریا کی جانب سے حماس کے حملوں کی طرز پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے۔

لیکن کیا واقعی جنوبی کوریا کو اسی نوعیت کے حملوں کا خطرہ ہے، یا اس تنازعہ نے اسے محض اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور شمالی کوریا پر سختی کرنے کی وجہ فراہم کی ہے؟ اسرائیل کی طرح جنوبی کوریا بھی ایک ایسے دشمن ملک کا پڑوسی ہے، جس نے اسے تباہ کرنے کی اکثر دھمکی دی ہے۔

حماس کا اسرائیل پر حملہ، جہاں گوریلا جنگجوؤں کے حملے کے طور پر اس کی سرزمین پر راکٹ فائر کیے گئے، اس کی ایک بہترین مثال ہے جسے ’ہائبرڈ وار فیئر‘ کہا جاتا ہے۔ 21 ویں صدی کے ملٹری اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ایک ریسرچ فیلو ریو سنگ ییپ کے مطابق یہ وہ شعبہ ہے جس میں شمالی کوریا روایتی طور پر بہت اچھا رہا ہے، ہائبرڈ جنگ میں ملوث ہونے کی صورت میں سیول کو نقصان پہنچے گا۔

یوں تو حماس نے 7 اکتوبر کے ابتدائی گھنٹوں میں اسرائیل پر 5 ہزار راکٹ فائر کیے، مگر پیونگ یانگ کا توپ خانہ ایک گھنٹے میں اندازاً 16 ہزار راؤنڈ فائر کر سکتا ہے، اس نوعیت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے، جنوبی کوریا بھی اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ کی طرز پر اپنا میزائل ڈیفنس سسٹم ترتیب دے رہا ہے۔

اور جس طرح حماس نے غزہ میں کیا ہے، اسی طرح شمالی کوریا نے بھی زیر زمین سرنگوں کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے، جن میں سے کچھ غیر فوجی زون کے زیر زمین بھی ہیں، جہاں ہتھیاروں کا ذخیرہ کر کے ممکنہ حملے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

شمالی کوریا سے لاحق خطرہ کتنا حقیقی ہے؟

شمالی کوریا کا خطرہ کئی دہائیوں سے جنوب میں ہر طرف موجود ہے اور دونوں کوریاؤں کے درمیان موجودہ تناؤ خاص طور پر بہت زیادہ ہے، تاہم اس ضمن میں آخری اہم حملہ 13 سال قبل ہوا تھا، جب شمالی کوریا کے فوجیوں نے جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر گولہ باری کی تھی، جس میں دو فوجیوں سمیت 4 ہلاکتیں ہوئی تھیسیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی حکمت عملی اس حملے کے بعد ارتقائی مراحل طے کرچکی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی تنازع میں پیونگ یانگ کا مقصد سرحد کی خلاف ورزی نہیں بلکہ دارالحکومت سیول کو تباہ کرنا ہوگا۔

کوریا انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل یونیفیکیشن میں شمالی کوریا کے ریسرچ کے ڈائریکٹر ہونگ مِن کے مطابق

حماس بنیادی طور پر مختصر فاصلے کے راکٹوں پر انحصار کرتی تھی، شمالی کوریا کے پاس بہت بڑی رینج اور مختلف قسم کے توپ خانے ہیں۔ اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت حماس سے کئی گنا بہتر ہے۔

حالیہ برسوں میں، پیونگ یانگ نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو بہتر بنانے اور بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل تیار کیے ہیں جو ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حکومت کے ایک سابق دفاعی مشیر چو سیونگ ریول کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ شمالی کوریا کے پاس اب حماس جیسے عسکریت پسند گروپ کے ساتھ ملتے جلتے حربے استعمال کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ’شمالی کوریا ایک خودمختار ملک ہے، جس کی اپنی فوج اور جوہری ہتھیار ہیں۔‘

چو سیونگ ریول، جو اب جنوبی کوریا کی نجی کیونگنم یونیورسٹی میں ملٹری اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں، نے یہ بھی دلیل دی کہ شمالی کوریا کو ابھی جنگ میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے کہ ان کے پاس پہلے سے ہی ایک آزاد ریاست ہے۔

مزید برآں جنوبی کوریا اور امریکہ نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ جنوبی کوریا پر کسی بھی حملے کا نتیجہ کم جونگ ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گا اور کم جونگ ان کی اولین ترجیح ہمیشہ ان کی حکومت کی بقا رہی ہے۔

اس کے باوجود، اسرائیل پر حملے نے جنوبی کوریا کی قدامت پسند حکومت کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا سرحد پر حفاظت اتنی ہی سخت ہے جتنی کہ ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے۔ جنوبی کوریا کی انتظامیہ نے فوجی طاقت اور بات چیت پر جوابی کارروائی کے خطرے کو ترجیح دیتے ہوئے شمالی کوریا پر سخت رویہ اختیار کیا ہے۔

خاص طور پر، اس نے ایک فوجی معاہدے پر تنقید کی ہے، جس پر ملک کی سابق انتظامیہ کے زیر اہتمام 2018 میں شمالی اور جنوبی کوریا نے دستخط کیے تھے، جس کا مقصد سرحد پار جھڑپوں اور حملوں کو روکنا تھا۔

اس معاہدے سے ایک نو فلائی زون تشکیل دیا گیا تھا، جس میں دونوں فریقین کو سرحد کے قریب فوجی طیارے یا نگرانی کے آلات کے استعمال سے منع کیا گیا۔ جنوبی کوریا کے حال ہی میں مقرر کردہ وزیر دفاع شن وون سک نے اب اس معاہدے کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ شمالی کوریا کی نگرانی کرنے والے ڈرونز کی نگرانی کی جا سکے۔

’2018 کے فوجی معاہدے نے ہماری نگرانی اور جاسوسی کی صلاحیتوں کو بہت حد تک محدود کر دیا ہے، اگر اسرائیل غزہ کے ساتھ اپنی سرحد پر بہتر نظر رکھتا تو اس سے ہلاکتوں کی تعداد کم ہو سکتی تھی۔‘

اگرچہ شمالی کوریا نے 2018 کے بعد سے متعدد بار معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، تاہم جھڑپوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، جس سے کچھ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے سے کشیدگی میں اضافہ اور حملے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

کوریا انسٹی ٹیوٹ برائے قومی اتحاد کے ہونگ من کے مطابق معاہدے کو ختم کرنے سے سرحد کے قریب حقیقی وقت کی نگرانی میں قدرے بہتری آسکتی ہے، لیکن یہ کوئی بہت قابل قدر بہتری نہیں کہی جاسکے گی۔

مسٹر ہونگ نے کہا کہ اس کے بجائے توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہئے کہ شمالی کوریا کو پہلے حملہ کرنے سے روکا جائے۔ ’اس وقت کوئی بھی ملک شمالی کوریا کے تمام ہتھیاروں سے مکمل طور پر حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، اگر حماس کی طرح، وہ سب کچھ بہ یک وقت لانچ کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp