نیپال نے کہا ہے کہ وہ چین کی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرے گا کیونکہ اس کا مواد سماجی ہم آہنگی میں خلل ڈالتا ہے۔ یہ فیصلہ ملک میں ایک نیا قانون متعارف کرانے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا فرمز کو ملک میں رابطہ دفاتر قائم کرنے کی ضرورت ہوگی۔
چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک، جس کے ماہانہ صارفین کی تعداد ایک ارب کے لگ بھگ ہے، پر بھارت سمیت کئی ممالک نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں مونٹانا اس پر پابندی عائد کرنے والی پہلی امریکی ریاست بن گئی تھی جبکہ برطانوی پارلیمنٹ نے اس پر اپنے نیٹ ورک پر پابندی عائد کردی تھی۔
نیپال کی ٹیلی کام اتھارٹی کے چیئرمین پرشوتم خانل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایپ کو بند کردیں۔ اس پابندی کے اطلاق کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ یہ بھی رپورٹ کر رہے ہیں کہ اس ہفتے کے اوائل میں کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
ٹک ٹاک کو دنیا بھر کے حکام کی جانب سے ان خدشات کی وجہ سے جانچ پڑتال کا سامنا ہے کہ ڈیٹا چینی حکومت کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس نے اس سے قبل اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔ ٹک ٹاک نے نیپال میں حکومت کی جانب سے حالیہ پابندی پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اگرچہ ٹک ٹاک فیس بک اور انسٹاگرام جیسی کمپنیوں سے پیچھے ہے لیکن نوجوانوں میں اس کی ترقی اس کے حریفوں سے کہیں زیادہ ہے۔ نیپال میں گزشتہ 4 برس کے دوران ٹک ٹاک سے متعلق سائبر کرائم کے 1600 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
نیپال میں میڈیا کے استعمال سے متعلق میڈیا ایکشن رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک قومی سطح پر تیسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم ہے۔ اگرچہ یوٹیوب اور فیس بک تمام عمر کے انٹرنیٹ صارفین میں مقبول ہیں، لیکن ٹک ٹاک نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہے۔ 16 سے 24 سال کی عمر کے 80 فیصد سے زیادہ سوشل میڈیا صارفین اس پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان اکتوبر 2020 سے اب تک کم از کم 4 مرتبہ ایپ پر عارضی طور پر پابندی عائد کرچکا ہے جبکہ انڈونیشیا میں گزشتہ ماہ اس کی آن لائن شاپنگ سروس بند کر دی گئی تھی۔