پاکستان میں لوٹوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ

بدھ 15 نومبر 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک وقت تھا جب پاکستانی سیاست میں رواداری سیاستدانوں کا شیوہ تھا۔ ایسے ایسے وضع دار سیاستدان بھی گزرے ہیں کہ ان پر اگر کسی نے کوئی احسان کیا تو اس کے وہ تاحیات ممنون نظر آئے۔

سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر اور سابق وزیرِاعلی پنجاب حنیف رامے بھی ایسے 2 سیاستدان تھے جنہیں پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب میں بڑے عہدوں سے نوازا تھا۔ ان دونوں کے بھٹو صاحب سے اختلافات پیدا ہوگئے اور اختلافات اس حد تک بڑھے کہ میڈیا کی ذینت بننا شروع ہوگئے۔ بالآخر 1975 میں کھر صاحب اور حنیف رامے نے بھٹو صاحب سے اپنی راہیں جدا کرلیں اور ان کی مخالف جماعتوں کے اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) میں شمولیت اختیار کرلی۔ پھر جب 1977 میں پی این اے کی تحریک کی وجہ سے بھٹو صاحب پر بُرا وقت آیا تو اس مشکل وقت میں حنیف رامے اور مصطفیٰ کھر نے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرکے بھٹو صاحب کا ساتھ دیا۔

ذرا سوچیں موجودہ پاکستانی سیاست میں کتنے حنیف رامے اور مصطفیٰ کھر ہیں جو کسی سیاسی بحران میں اپنی پارٹی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ان مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور کتنے چوہدری نثار، پرویز خٹک، عثمان بزدار اور محمود خان ہیں جو مشکل وقت میں پارٹی قیادت کا ساتھ دینے کے بجائے بھاگ گئے یا سیاست سے کنارہ کشی کا بہانہ بنا لیا۔

2018 میں جب نواز شریف پر مشکل وقت آیا تو اس میں کوئی شک نہیں بہت سے پارٹی رہنما ان کے ساتھ نہ صرف کھڑے رہے بلکہ پارٹی قیادت کیوجہ سے جیلیں بھی کاٹیں۔ لیکن کچھ ایسے اہم اور بڑے سیاسی کردار بھی تھے جنہوں نے مشکل وقت آتے ہی نواز شریف سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ جس میں سرفہرست راولپنڈی کے سپوت چوہدری نثار علی خان تھے جنہوں نے پارٹی چھوڑ کر آزادانہ انتخاب لڑا۔

اسی طرح وہ سیاستدان جنہیں اپنے دور میں عمران خان نے بڑے عہدوں سے نوازا انہوں نے بھی خان صاحب پر مشکل وقت آتے ہی پارٹی چھوڑنے میں دیر نہیں لگائی۔ لیکن بے وفائی کرنے والے ایسے سیاستدانوں کو تاریخ کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھتی۔

ان 2 طرح کے سیاستدانوں کے علاوہ ایک اور تیسری قسم بھی ہے جنہیں عرفِ عام میں الیکٹیبلز یا لوٹے کہا جاتا ہے۔ ان لوٹوں کی ڈیمانڈ میں ہر الیکشن سے پہلے اضافہ ہوتا ہے اور ان کی سیاسی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ انتخابات کا اعلان ہونے سے بھی پہلے ان کو بھنک پڑجاتی ہے یا بتا دیا جاتا ہے کہ اگلی حکومت کس پارٹی کی ہوگی۔

سیاسی پنڈت بتاتے ہیں کہ ان الیکٹیبلز یا لوٹوں کا رواج میاں ممتاز دولتانہ کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان لوٹوں کی سیاست میں بھی جدت آئی ہے اور اب یہ انفرادی طور پر کسی جماعت کے ساتھ شامل ہونے کے بجائے گروپس اور دھڑوں کی شکل میں شامل ہوتے ہیں تاکہ بہتر بارگیننگ کرکے زیادہ سے زیادہ وزارتیں یا مراعات حاصل کرسکیں۔ ایسا ہی ایک گروپ ہر الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے نام پرایک پارٹی چھوڑ کر دوسری متوقع کنگز پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے۔

اب ہم دیکھ رہیں کہ کنگز پارٹی کا تاثر مسلم لیگ (ن) سے متعلق بن رہا ہے اور اسی تاثر کو مدِنظر رکھتے ہوئے بڑے بڑے فصلی بٹیرے یا سیاسی لوٹے مختلف سیاسی جماعتوں سے اڑان بھر کر (ن) لیگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

میڈیا میں آنے والی مختلف خبروں سے بھی یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ایسے چند الیکٹیبلز یا لوٹوں کو پارٹی میں شامل کرنے کی ہامی (ن) لیگ کی قیادت بھرنے کو تیار ہے۔ (ن) لیگ کو شاید اپنا ماضی قریب یاد نہیں ہے کہ کس طرح اس کی قیادت نے 2018 میں دہائیاں دی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے بندے توڑ کر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شامل کروا رہی ہے۔ اب اگر وہ کوئی لوٹے اپنی جماعت میں شامل کرتی ہے تو اس کا کیا جواز پیش کرے گی؟

اس میں شک نہیں کہ ہم بحیثیت قوم یہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایک آئیڈیل یا مثالی جمہوریت ہوجوکہ نہ صرف ملک میں ترقی کے اسباب پیدا کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ہر وہ سہولیات فراہم کرے جو ایک ترقی یافتہ ملک کے شہری کو میسر ہوں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں مثالی جمہوریت کو پنپنے میں شاید مزید کئی دہائیاں لگیں گی مگر اس سے پہلے ہمیں صرف اپنے ہی رویوں کو جمہوری نہیں بنانا ہوگا بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت کو پروان چڑھانا ہوگا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام سے لیکر سیاسی جماعتوں تک سبھی شارٹ کٹ تلاش کرتے رہتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے منزل مقصود اقتدار کا حصول ہے اور اس کے لیے وہ اپنے تمام اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو ہروقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

عمران خان کی ہی مثال دیکھ لیں جنہوں نے سیاست صرف اس بنیاد پر شروع کی تھی کہ ملک سے چوروں، کرپٹ افراد، موروثی سیاست اور ان الیکٹیبلز کا صفایا کریں گے، نوجوانوں کو سیاست میں آگے لائیں گے، مگر سب سے زیادہ لوٹے انہوں نے اپنی پارٹی میں جمع کیے اور اس کا خمیازہ پھر انہوں نے بھگتا بھی ہے کہ مشکل میں سب سے پہلے وہی لوٹے انہیں چھوڑ کر گئے۔

سیاسی جماعتوں سے التماس ہے کہ صرف ایک بار وہ اپنے اصولوں کی پاسداری کرلیں اور ان اصولوں کے لیے اگر انہیں اقتدار سے ہاتھ بھی دھونا پڑے تو انکار نہ کریں مگران لوٹوں سے پاکستان کو چھٹکارا دلا دیں۔ صرف ایک بار تمام سیاسی جماعتیں یہ ایک دوسرے کے ساتھ ملکر فیصلہ کرلیں تو پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp