سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اس کے بعد پی ڈی ایم کے دور حکومت کے دوران سابق صدر آصف زرداری انتہائی پراعتماد نظر آنے لگے۔ جب عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے پیچھے امریکی سازش کا الزام لگایا تو آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو نے بلاتردد کہا کہ آپ کے خلاف عدم اعتماد کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ آپ کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے ہم ہیں۔
پھر آصف زرداری یہ بھی کہتے رہے کہ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو کو بناؤں گا، دوسری جانب ان کی جماعت شہباز شریف کو وزارت عظمی ملنے اور ان کے سخت معاشی فیصلوں کے نتیجے میں مہنگائی کے سیلاب سے بھی نظریں چرانے لگی اور اندر اندر خوش تھے کہ عوام کی شدید تنقید کا نشانہ صرف شہباز شریف اور ان جماعت مسلم لیگ نواز ہی بن رہے تھے۔
حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی منظرنامہ تبدیل ہونے لگا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات آنے لگیں۔ کہا گیا کہ وفاقی ترقیاتی منصوبے پنجاب میں تو جاری و ساری ہیں جبکہ سندھ میں جاری منصوبے فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔
دبے لفظوں میں شکایات کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے شدید سیاسی اختلاف میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت گرانے پر فخر کرنے والی پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو انتخابی اتحاد کے پیغام بھیجنے لگی۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے پی ڈی ایم کی مشترکہ جدوجہد اور کاوشوں کی دعویدار پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز کو اپنا سخت حریف تصور کرنے لگی۔
نوازشریف کی پاکستان آمد پر سرکاری پروٹوکول اور یکے بعد دیگرے ضمانتوں کو پیپلز پارٹی نے نواز شریف کی وطن واپسی کو مقتدر حلقوں کے ساتھ ایک ڈیل کا شاخسانہ قرار دیا اور انہیں ‘سلیکٹڈ’ اور ‘لاڈلہ’ کے القابات سے نوازنا شروع کردیا۔ اکا دکا بیانات کے سوا مسلم لیگ ن خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی مگر جب نواز لیگ نے سندھ میں جی ڈی اے اور کراچی میں ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد کی پینگیں بڑھائیں تو سندھ میں کئی دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی سیخ پا ہوگئی۔ بلاول بھٹو نے نواز شریف کے دورہ بلوچستان پر انہیں مشورہ دیا کہ وہ ادھر اُدھر ایک دو نشستیں حاصل کرنے کی بجائے اپنے لاہور پر فوکس کریں۔
مسلم لیگ نواز کی سیاسی محاذ پر تیز پیش قدمی نے صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ دیگر جمہوری حلقوں اور سیاسی نقادوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر ایک ‘سلیکٹڈ سیٹ اپ’ لانے کی کوششں کی جارہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو ایک اشارہ دیا جاتا ہے اور وہ اس مخصوص سیاسی جماعت کی جھولی میں جا گرتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری جو اپنے صاحبزادے کو وزارت عظمی کے امیدوار بنائے بیٹھے تھے آج وہ اشاروں اشاروں میں اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ کناں ہیں۔ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں انہوں نے پنجاب میں اپنی جماعت کو دوبارہ فعال کرنے کی بے حد کوششیں کیں مگر سب رائیگاں گئیں۔ الیکٹیبلز نے بھی ان کی دعوت کو نظرانداز کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی کی چھتری تلے پناہ لینا زیادہ مناسب سمجھا۔
استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے زیادہ تر سیاستدانوں کی تعداد تحریک انصاف کے منحرفین یا ان باغیوں کی ہے جو عمران خان کی ٹکراؤ کی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ عمران خان کی اقتدار کے حصول کی خاطر تمام جمہوری قوتوں کو چور ڈاکو قرار دے کر ہمیشہ مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرایا اور اپنے مخالفین کے خلاف اندھا دھند انتقامی کارروائیوں کی بھرپور حمایت کی۔ پھر اقتدار سے نکلنے کے بعد اس سے بھی بھرپور انداز میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کے خاطر ہر حد پار کرگئے۔ ان کے اس اقدام سے انہیں مقبولیت اور عوامی پذیرائی تو خوب ملی مگر ان کی قبولیت کہیں نہ رہی۔ 9 مئی کے واقعہ نے ملک میں جمہوری اسپیس اور میڈیا کی آزادی کو خاصی ٹھیس پہنچائی ہے۔
2018 کے انتخابات سے قبل بھی ایسی ہی صورتحال تھی اور تحریک انصاف کو اقتدار سونپا گیا اور آج اس کی جگہ نواز لیگ نے لے لی ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج پھر تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ شاید مستقبل قریب میں بھی تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔