جنوبی افریقہ فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کیوں کر رہا ہے؟

جمعہ 17 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنوبی افریقہ کی حکومت نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جاری حملوں کے درمیان فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کیا ہے، تاہم اس نے مزاحمتی گروپ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں پر حملے اور اغوا کرنے کی مذمت بھی کی ہے۔

وزیر خارجہ ڈاکٹر نالیدی پانڈور نے پارلیمنٹ میں اسرائیل اور فلسطین تنازعہ پر وزارتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ جو نسل پرستی سے آزادی کا لطف اٹھارہے ہیں، وہ کبھی جبر کی نسل پرستانہ شکل سے متفق نہیں ہو سکتے، یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس بربریت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔

نالیدی پانڈور نے کہا کہ عام شہریوں، بنیادی ڈھانچے، اقوام متحدہ کے احاطے اور دیگر کمزور اہداف کو نشانہ بنانے کے ذریعے فلسطین میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر جنوبی افریقہ دنیا کے ساتھ اس کی مذمت کرتا ہے۔

’بطور جنوبی افریقی سیاہ فام یہ کارروائیاں ہمیں نسل پرستانہ دور کے اپنے تجربات کی یاد دلاتی ہیں، غزہ اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اپنے غصے اور تشویش کا اظہار کرنے کے لیے دنیا بھر کے شہروں کے لوگوں کی طرح جنوبی افریقیوں نے بھی سڑکوں پر نکلنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے۔‘

گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کے حملے پر مشاورت کے لیے تل ابیب سے اپنے تمام سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا، جس کے بعد صدر کے دفتر کی ایک وزیر، کمبڈزو شاوینی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بین الاقوامی برادری کی نگرانی میں نسل کشی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ’بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک اور ہولوکاسٹ قابل قبول نہیں ہے۔

جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ ڈاکٹر نالیدی پانڈورکا کہنا ہے کہ بطور جنوبی افریقی سیاہ فام یہ اسرائیلی کارروائیاں ہمیں نسل پرستانہ دور کے اپنے تجربات کی یاد دلاتی ہیں۔

جنوبی افریقہ کی حکومت نے وزارت خارجہ کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ جنوبی افریقہ میں اسرائیل کے سفیر ایلیو بیلوٹسرکوسکی کے طرز عمل سے نمٹنے کے لیے ضروری سفارتی اقدامات اٹھائے، جن کا طرز عمل، ان کے مطابق نہایت ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ بیلوٹسرکوسکی پر فلسطینیوں پر حملوں کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کے خلاف تبصرے کرنے کا الزام ہے۔

جنوبی افریقہ ان مٹھی بھر افریقی ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے فلسطین کی آزادی کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔

تاریخی روابط

یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ کے ماہر سیاسیات لیسیبا ٹیفو کے مطابق جنوبی افریقہ گذشتہ کئی برسوں سے مستقل مزاجی کے ساتھ فلسطین کی حمایت کر رہا ہے۔ جنوبی افریقہ اور فلسطین کے درمیان کئی دہائیوں سے تاریخی تعلقات ہیں اور ان کی آزادی کے لیے فلسطینی کاز کی حمایت کرنا ضروری ہے۔

’فلسطین نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران جنوبی افریقہ کے ساتھ تھا، جبکہ برطانیہ اور امریکا نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا لیکن وہ ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ یہ سیاق و سباق اہم ہے۔‘

یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ کے ماہر سیاسیات لیسیبا ٹیفو کے مطابق جنوبی افریقہ گذشتہ کئی برسوں سے مستقل مزاجی کے ساتھ فلسطین کی حمایت کر رہا ہے۔

اسی یونیورسٹی سے وابستہ سیاست کے ایک اور پروفیسر ڈرک کوٹزے بتاتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کی حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس یعنی  اے این سی کے  نسل پرست مخالف اور جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا زمانے سے ہی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او  کے ساتھ تاریخی روابط رہے ہیں۔

گہری تقسیم کو ہوا دیتے تنازعات

اسرائیل اور فلسطین تنازعہ پر جنوبی افریقہ کے موقف نے مخالف سیاست دانوں اور یہودی تنظیموں کے درمیان گہری تقسیم پیدا کر دی ہے، حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک الائنس نے فلسطین کی حمایت اور اپنے سفارت کاروں کو واپس بلانے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اسرائیل میں موجود جنوبی افریقیوں کو قونصلر خدمات کے بغیر خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

انکاتھا فریڈم پارٹی اور افریقن کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی بھی حکومت کے تل ابیب سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلانے کے فیصلے کی مخالف ہیں، فریڈم پارٹی کے قانون ساز رکن ملیخو ہیلینگوا  نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سفیر کو واپس بلانا رجعت پسندانہ سفارتکاری کے مترادف ایک غلطی تھی۔

پروفیسر ڈرک کوٹزے نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں بہت سے عیسائی ہیں اور کچھ اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹک الائنس کے بہت سے یہودی نژاد حامی ہیں جبکہ دیگر جماعتیں، جیسے پیٹریاٹک الائنس، مذہبی وجوہات کی بنا پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دو ہفتے قبل جب پیٹریاٹک الائنس کے رہنما گیٹن میکنزی سے فلسطین کے حق میں اسرائیل کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے کا کہا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی جوہانسبرگ میں حکمراں جماعت اے این سی کے ساتھ حکومتی اتحاد میں کام چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔

جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ کا ایک بیرونی منظر (فائل فوٹو)

دوسری جانب جنوبی افریقہ میں مقیم میڈیا ریویو نیٹ ورک کے ایک ایگزیکٹو ممبر اقبال جست نے  ترک نیوز ایجنسی انادولو کو بتایا کہ وہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی طرف سے تل ابیب میں جنوبی افریقہ کے سفارت خانے سے سفارتی عملے کو واپس بلانے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اقبال جست نے کہا کہ ان کا گروپ اسرائیلی ایلچی کو ملک بدر کرنے اور جوہانسبرگ میں سفارتخانے کو بند کرنے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، تاہم انہیں ایوان صدر کے اس اعلان پر خوشی ہوئی کہ اسرائیلی فوج میں تعینات جنوبی افریقی شہری ملکی قوانین بالخصوص غیر ملکی فوجی امداد کے ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کریں گے۔

اقبال جست نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل نواز تنظیموں کی مذمت کرتے ہیں جو خوفناک قتل عام کو جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔’ہم سمجھتے ہیں کہ نسل پرست آباد کار نوآبادیاتی اسرائیل جیسی حکومت کا خاتمہ اور اس کے ساتھ تمام روابط منقطع کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘

فلسطینی حکام کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے 39ویں دن تک کم از کم 11 ہزار 180 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 7 ہزار 7 سو خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ 28 ہزار 2 سو سے زائد فلسطینی شہری زخمی ہو چکے ہیں۔

اسی دوران سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 12 سو شمار کی گئی ہے۔

گذشتہ ماہ سے غزہ کے محصور انکلیو پر اسرائیل کے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں میں ہسپتالوں، مساجد اور گرجا گھروں سمیت ہزاروں عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ کی جاچکی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp