ورلڈ کپ 2023 میں نومبر 15 کو ایک دردناک اور غیرانسانی واقع پیش آیا جب بھارت نے نیوزی لینڈ کو اک وحشیانہ اننگز میں تقریباً 4 سو رنز مار ڈالے۔ ٹھیک ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آ کر ہر ٹیم کی جیتنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن جیت کو جیت تک ہی رہنے دیں، یہ قیامت کا سماں بنانے کی کیا ضرورت تھی ؟ میں نے تو جتنی بار آنکھ کھول کر میچ دیکھا، بال کو ہوا میں ہی پایا۔ بھارت کی طرف سے روہت شرما، شرییاس ایر، کوہلی اور گل نےنیوزی لینڈ کو اتنا مارا کہ اب آخر کار میرے خیال سے نیوزی لینڈ ہر بار سیمی فائنل میں آنے سے باز آ جائے گا۔
مجھے اِس میچ سے ایک ہی مسئلہ تھا۔ وہ تھا نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل میں ہونا۔ ہر ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کی سیمی فائنل میں جگہ ایسے پکی ہوتی ہے جیسے میاں صاحب کے لیے ہر بار الیکشن میں دوتہائی سیٹیں۔ اور ہم پاکستانی بھی نیوزی لینڈ کو ہر بار سپورٹ کرنے آ جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی سیمی فائنل ہو جس میں میری امیدیں نیوزی لینڈ نے نہ توڑی ہوں۔ ایسے لگتا ہے کہ نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل میں ہونا کائنات کے نظام کا ایک خاص حصہ ہے۔ کوئی کہیں بھی چلا جائے، نیوزی لینڈ ہمیشہ سیمی فائنل میں ہی جائے۔
اور حُسْن کوہلی کی تعریف ممکن نہیں۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں پچاسویں سنچری بنا کے کوہلی نے ایک بار پِھر ثابت کر دیا کہ صرف انوشکا ہی کوہلی جیسے بندے کی حق دار ہے۔ کوہلی اک بہت خوبصورت انسان ہیں۔ جس انداز میں وہ اپنی بِیوِی کے لیے پیار کا اظہار کرتے ہیں، اگر ایسے سب مرد کرنے لگ جائیں تو شاید دنیا میں سکون آ جائے۔ کوہلی اب بادشاہ نہیں رہے بلکہ وہ اب شہنشاہ بن چکے ہیں اور ان کی رنز کی سلطنت کو اب کوئی نہیں للکار سکتا۔
یہ تو تھا بھارت۔ اب آ جائیں دو ایسی ٹیمز کی طرف جو پتہ نہیں کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ دوسرا سیمی فائنل آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان تھا۔ جنوبی افریقہ بغیر کسی شرمندگی کے اور عادت سے مجبور ہو کر صرف 213 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ جنوبی افریقہ وہ واحد ٹیم ہے جو شاید اپنے آپ سے بھی ہار جائے۔ دنیا کے بہترین بولرز اور بلے بازوں کے ہوتے ہوئے بھی انتہائی بُرے طریقے سے صرف جنوبی افریقہ ہی ہار سکتا ہے۔ یا کبھی کبھی پاکستان بھی۔ آسٹریلیا کے خلاف جنوبی افریقہ نے البتہ بولنگ میں اپنی پوری جان لڑا دی۔ ایک وقت پر لگا کہ شاید آسٹریلیا ہار ہی جائے لیکن وہ آسٹریلیا کیسے ہو سکتا ہے جو آرام سے ہار جائے۔
میں نے اندازہ لگایا ہے کہ آسٹریلیا کے لیے کرکٹ ایک انا کا مسئلہ ہے۔ وہ پہلی بال سے آخری بال تک یہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کسے نوں نئی چھڈنا۔ ہوا میں اچھل کر کیچ، ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ رنز، کمر درد کے ساتھ وکٹیں لینا، چہرے کے غصے سے اگلی ٹیم کی جان نکالنا، اور ہر بال کو ایسے مارنا جیسے بال نے ان کی جائیداد کا حصہ ہڑپ کر لیا ہے، آسٹریلیا کی ٹیم کئی دہائیوں سے ایسی تھی، ہے اور شاید مستقبل میں بھی ایسی ہی رہے گی۔
جہاں سیمی فائنل میں ٹیموں کی زندگیاں اوپر نیچے ہو رہی تھی اُدھر ہی پاکستان کرکٹ کی اپنی مستیاں چل رہی تھی۔ بابر اعظم نے کپتانی چھوڑ دی، پی سی بی میں بہت سی تبدیلیاں ہوگئی اور شاہین شاہ ٹیم ٹی 20 کپتان بن گئے۔ یعنی کے ہم جو سوچ رہے تھے کہ شاہین شاہ اِس ورلڈ کپ کے بعد آرام کر سکتے ہیں، اب انہیں ہر غیر ضروری میچ کھیلنا ہو گا کیوں کے وہ کپتان ہیں۔ میں اب سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں کے اگر پی سی بی سوچنا شروع کر دے تو کیسا لگے گا۔