آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی مستقبل میں دنیا بھر کے 50 فیصد سے زائد افراد کو بے روزگار کر سکتی ہے، دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ایلون مسک کے اس بیان نے سب کو حیران اور پریشان کردیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے انقلاب برپا کردیا ہے، زراعت، میڈیسن، طب، صنعت و پیداوار کے ہر شعبہ میں اے آئی کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ٹیکنالوجی تو ایک عرصہ سے انسانوں کے متبادل کے طور پر متعارف ہوچکی ہے مگر اب انسانی دماغ کا متبادل بھی اے آئی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔
پاکستان اس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کہاں کھڑا ہے؟ حکومتی یا کارپوریٹ سطح پر اے آئی کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے یا پرائیویٹ شعبہ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری سے کیوں خائف ہے؟
ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے وی نیوز نے نیشنل سینٹر فارآ ٹیفیشل انٹیلیجنس (این سی اے آئی) کے سربراہ ڈاکٹر یاسر الیاس اور چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سمیت مختلف ماہرین سے بات کی ہے۔
این سی اے آئی کے سربراہ ڈاکٹر یاسر الیاس نے بتایا کہ این سی اے آئی کی بنیاد 2017ء میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)، اسلام آباد سے کی گئی جس کے ساتھ صوبوں میں موجود دیگر 5 اعلیٰ تعلیمی اداروں کا الحاق بھی ہے۔ این سی اے آئی کو حکومتی سطح پر آرٹیفیشل اینٹیلیجنس کے حوالے سے پہلا ادارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
پاکستان نے اب تک کتنی اے آئی پروڈکٹس تیار کیں؟
ڈاکٹر یاسر الیاس نے بتایا کہ اے آئی نیشنل سینٹر نے اب تک 250 سے زائد ایسی پروڈکٹس تیار کی ہیں جنہیں میڈ ان پاکستان کہا جا سکتا ہے، یہ تمام اے آئی پروڈکٹس سمارٹ شہروں کی تعمیر، صحت، زراعت، میڈیا مانیٹرنگ، مینوفیکچرنگ انڈسٹری، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ہیں۔
سرکاری و نجی شعبہ کو اے آئی کے فوائد کا اندازہ نہیں
انہوں نے بتایا کہ این سی اے آئی کے کرائم کی روک تھام کے لیے تیار کیے گئے سافٹ ویئر لاہور پولیس استعمال کر رہی ہے جبکہ میڈیکل کے شعبہ میں مختلف اسپتالوں میں پائلٹ پروجیکٹس جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ سرکاری اداروں کو اس طرف راغب کیا جائے مگر بد قسمتی سے نجی اور سرکاری دونوں ہی شعبوں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ اے آئی کتنا بڑا انقلاب ہے جو ہمارے نظام کو زمین سے آسمان پر لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر یاسر الیاس کے مطابق ٹیکنالوجی کا مستقبل کہلانے والے اس شعبہ کے لیے پاکستان میں فنڈز بڑا مسئلہ ہیں، حکومت نے اے آئی سینٹرز کو پی ایس ڈی پی منصوبوں کی فہرست سے ہی نکال دیا ہے، کراچی سیف سٹی پروجیکٹ حال ہی میں ایوارڈ کیا گیا ہے جس کی مالیت تقریباً 50 ارب روپے ہے، یہ تمام کیمرے امپورٹ کیے جائیں گے، اگر یہ پروجیکٹ نیشنل سینٹر کے حوالے کیا جائے تو ہم 3 سے 4 گنا کم قیمت پر فراہم کرسکتے ہیں۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے متعلقہ ملازمتیں زیادہ اور افراد کم ہیں
ڈاکٹر یاسر الیاس نے اے آئی ٹیکنالوجی کے نفاذ کے افرادی قوت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے بتایا کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ اے آئی ٹیکنالوجی لوگوں کو بے روزگار کردے گی مگر بنیادی بات یہ ہے کہ آخر ٹیکنالوجی کو بھی کسی انسان نے ہی چلانا ہے، پاکستان میں تو اے آئی کے شعبہ میں بے پناہ مواقع ہیں مگر افراد کی کمی ہے، اس لیے ایسے خدشات کو ابھی ہمیں اپنے ذہنوں میں نہیں لانا چاہیے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے بتایا کہ نیشنل سینٹر نے ایک خصوصی ٹریننگ پروگرام ترتیب دیا ہے جو آئی ٹی سے وابستہ نوجوانوں کو تربیت دے گا، اے آئی کے ذریعے جو انقلاب آ رہا ہے ہمیں پہلے سے اپنے لوگوں کو اس کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
این سی اے آئی کی تیار کردہ پروڈکٹس کو مارکیٹ میں کیوں نہیں لایا جاسکا؟
اے آئی کے حوالے سے قائم نیشنل سینٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی نگرانی میں کام رہا ہے، پروگرام کی فنڈنگ اور تیار کی گئی پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے حوالے سے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں پاکستانی تعلیمی اداروں کا رجحان بڑھ رہا ہے، اے آئی ہم سب کی ترجیحات میں شامل ہے، نیشنل سینٹر نے بہترین کام کیا مگر یہ کہنا کہ نتائج فوری سامنے آئیں، ایسا ممکن نہیں۔
ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ ہمارے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اے آئی کے حوالے سے کئی جگہوں پر کام ہو رہا ہے مگر اس کو مربوط بنانے کے لیے ایک پروجیکٹ ایچ ای سی میں جاری ہے جس کا دسمبر میں افتتاح ہوگا۔
نجی شعبہ سست روی سے اے آئی کی طرف منتقل ہو رہا ہے
پاکستان میں حکومتی سطح پر آرٹیفیشل اینٹلیجنس کی ترقی کے لیے اگرچہ کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا مگر اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی تعلیم و صحت جیسے موضوعات کی نگران کمیٹی کے کنوینر عبدالرحمان صدیقی کا دعویٰ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر آہستہ آہستہ اے آئی ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
انہوں نے چیمبر کے ایک وفد کے حالیہ دورہ امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وفد نے شعبہ طب میں اے آئی کے استعمال کے حوالے سے نمائش میں شرکت کی اور تسلیم کیا کہ ہمارے ہاں ابھی ٹیکنالوجی یا نالج اکانومی کے حوالے سے زیادہ سرمایہ کاری بارے نہیں سوچا جاتا اور اس کی بنیادی وجہ حکومتی سرپرستی نہ ہونا ہے۔
اے آئی کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے
عبدالرحمان صدیقی نے کہا کہ یہ ایک مشکل شعبہ ہے جس کی شروعات کے لیے خطیر سرمایہ کاری درکار ہے جو حکومتی مدد کے بغیر ممکن نہیں مگر اس کے باوجود کام ہو رہا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا کاروبار سے متعلق اداروں کے پاس کوئی اعدادوشمار ہیں کہ اے آئی کے کاروبار کی ترقی یا روزگار پر کیا اثرات ہوں گے، عبد الرحمان صدیقی نے کہا کہ پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کا شعبہ موجود نہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی بجٹ مختص ہوتا ہے، اسی لیے اس حوالے سے کوئی بنیادی تحقیق دستیاب نہیں ہے۔
پاکستانی بزنس مین ٹیکنالوجی یا اے آئی میں سرمایہ کاری کا کیوں نہیں سوچتا؟
انٹر یونیورسٹی کنسورشیم کے نیشنل کوارڈینیٹر اور ماہر تعلیم مرتضیٰ نور نے وی نیوز کو بتایا کہ دنیا اے آئی ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سے دہائیاں آگے نکل چکی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک اس حوالے سے کوئی قومی پالیسی تک موجود نہیں، جب تک حکومت نجی شعبہ کو مجبور نہیں کرے گی یعنی انفورسٹمنٹ آف پالیسی پر عمل درآمد نہیں کرے گی تب تک اے آئی یا دیگر ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کا رجحان پیدا نہیں ہوگا۔
پاکستانی سرمایہ کار آئی ٹی پر تعمیری شعبہ کو ترجیح دیتا ہے
ڈاکٹر نور نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کا کچھ خوف بھی ہے، لوگوں کا خیال ہے اگر اے آئی کو سسٹم میں داخل کرلیا تو روزگار پر بہت زد پڑے گی، یہ خوف کسی حد تک ٹھیک ہے مگر ہر نئی چیز کئی مواقع بھی ساتھ لاتی ہے، ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، پاکستانی سرمایہ کار کے نزدیک ایک ہاؤسنگ سوسائٹی آئی ٹی کمپنی کی تشکیل سے زیادہ منافع بخش کام ہے اور یہی بنیادی مسئلہ ہے۔
انڈیا میں اے آئی انڈسٹری کی ابتدا کیسے ہوئی؟
اس حوالے سے چیئر مین ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے سرمایہ ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اتنا اہم نہیں جتنا تعلیم یا ٹریننگ ہے، اگر نوجوانوں کے پاس جدید ٹریننگ ہوگی یا اے آئی ایکسپرٹ ہوں گے تو پیسہ وہ خود ہی بنا لیں گے، ہمارے سامنے انڈیا کی مثال ہے جس نے ابتدائی طور پر بغیر کسی بڑی سرمایہ کاری کے ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابیاں حاصل کیں، انڈیا کا سرمایہ کار بعد میں اس انڈسٹری کا حصہ بنا۔
نیشنل اے آئی ماڈل وقت کی ضرورت
پاکستان میں ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر نالج کی ترویج کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن فار آئی ٹی کے سیکریٹری جنرل ندیم اے ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ اے آئی ریسرچ بنیادی طور پر ڈیٹا کی بنیاد پر ہوتی ہے، ہمارے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کنٹرول کی وجہ سے ابھی تک نیشنل اے آئی ماڈل ہی موجود نہیں ہے، بین الاقوامی سطح پر اے آئی ریسرچ کے لیے دستیاب ڈیٹا مغربی ممالک کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاملات میں وہ کسی حد تک جانبدار ہے۔
ندیم ملک نے کہا کہ چیٹ جی پی ٹی انگریزی میں ہے، سارا ڈیٹا انگلش اکانومی سے لیا گیا ہے، حکومت سب سے پہلے نیشنل اے آئی ماڈل پر کام کرے، ہائی اسپیڈ کمپیوٹنگ سسٹم درکار ہیں لہٰذا حکومت امپورٹ کے لیے آسانیاں پیدا کرے تاکہ ڈیٹا انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جاسکے۔
کیا اے آئی نیشنل پالیسی کا ڈرافٹ ناقابل عمل اور ویژن سے عاری ہے؟
اے آئی نیشنل سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر یاسر الیاس نے وزات انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے تیار کے گئے نیشنل پالیسی کے ڈرافٹ پر شدید تنقید کی جو منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ ان کے مطابق نیشنل پالیسی کے کئی نکات ناقابل عمل اور ویژن سے عاری ہیں، وزات پالیسی کی تیاری کے لیے ایسے اداروں یا افراد سے مشاورت کرے جن کا اے آئی کے میدان میں تجربہ ہے۔ این سی اے آئی کے تحت تیار کی گئی پروڈکٹس کو انٹر نیشنل مارکیٹ تک لانے کے لیے پالیسی میں کوئی راستہ موجود نہیں، جس طرح نادرا کا سافٹ ویئر ساری دنیا میں فروخت ہو رہا ہے اسی طرح ہماری اے آئی پروڈکٹس بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں جانی چاہئیں۔
ڈاکٹر یاسر نے شکوہ کیا کہ ٹیکنالوجی کئی ملکوں کی معیشت کو پال رہی ہے مگر ہمارے ہاں اس شعبے میں جو لوگ کام کر رہے ہیں ہم ابھی تک ان کی تنخواہوں کا مسئلہ نہیں حل کرسکے، اگر حکومت نے جلد کوئی پالیسی نہ دی تو خدشہ ہے کہ زیادہ تر باصلاحیت لوگ بیرون ملک منتقل ہو جائیں گے۔