پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں واقعات اس قدر تیزی رفتاری سے رونما ہو رہے ہیں کہ اصحاب فکر دانتوں تلے انگلی دبائے کھڑے ہیں۔
ایک طرف جناب عمران خان اپنی مخصوص حکمت عملی کے ساتھ ، پاکستان کے سیاسی مستقبل سے اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ بہرصورت لینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے محترمہ مریم نواز کی صورت ، نئی قیادت میدان میں اتاری ہے ۔ تیسری طرف پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سیاست کے سارے کھیل کو اپنے فیصلوں کے ساتھ باندھ کے رکھنا چاہتی ہے۔ رہے وزیر اعظم شہباز شریف ، وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ قابو سے باہر خراب معاشی صورت حال کو قابو کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
یہ ہے پاکستان کا مجموعی منظر نامہ ، جس میں ایک عام پاکستانی دیوار کے ساتھ لگا کھڑا سوچ رہا ہے کہ کیا پاکستان کے مستقبل میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے ؟ کیا اسے جینے کی کچھ اجازت مل جائے گی؟
عمران خان ، مریم نواز اور عدلیہ ، ان سب موضوعات پر بات آنے والے دنوں میں بھی ہوسکتی ہے ، آج عام پاکستانی کی بات کرتے ہیں ، جو میں بھی ہوں اور آپ بھی ہیں ۔
وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین بار ، بار موجودہ ابتر معاشی صورت حال کی ذمہ داری عمران خان کے ساڑھے تین سالہ عہد پر عائد کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان پراجیکٹ کی منصوبہ ساز اسٹیبلشمنٹ کو ساری خرابی کی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے اصل مقتدر حلقوں کو بھی کسی نہ کسی سطح پر اپنی حکمت عملی کے غلط ہونے کا احساس ہے۔ وہ نادم ہیں کہ جس گھوڑے کو میدان میں اتارا تھا ، وہ ریس میں شامل ہونے کے بجائے اپنی جگہ پر کھڑا ہنہناتا رہا ۔ اسے بہت پچکارا گیا ، حتیٰ کہ تنگ آکے چھانٹے بھی مارے گئے لیکن وہ دوڑ میں شامل نہ ہوا۔ یوں زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور پاکستانی قوم پر قیامت گزرنا شروع ہوگئی۔
اس تناظر میں پی ڈی ایم سرکار نے کھیل کے ” اصل منتظمین “ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک طرف ہو جائیں، اور اسے صورت حال کی خرابی دور کرنے دیں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت نے معاشی خرابی دور کرنے کی جو حکمت عملی تیار کی ، کیا وہ کام کر دکھائے گی ؟ یہی سوال پاکستان کے ایک عام آدمی کا ہے۔
اس وقت جو لوگ پاکستانی معیشت کو درست کرنے لگے ہوئے ہیں ، ان کے پسینے چھوٹے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ماہرین بھی ان کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بات کچھ خاص آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔
میری دانست میں جو خرابی مضمر ہے اس صورت میں ، اسے دور کرنے کا طریقہ آسان بھی ہے لیکن مشکل بھی ۔ مشکل اس اعتبار سے کہ ہمارے اصل اصحاب اختیار اپنی پرانی خُو چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ تاہم شرط اول یہی ہے کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ پیچھے ہٹ جائیں، چاہے تدریج کے ساتھ ہی سہی ۔ بہرحال اپنے اصل کام کی طرف لوٹ جائیں ۔
ثانیاً ، وہ اپنے بجٹ بالخصوص غیر حربی اخراجات میں غیر معمولی کمی لائیں۔ سنا ہے کہ اس حوالے سے فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ غیر حربی اخراجات میں چالیس سے پچاس فیصد کٹوتی کردی گئی ہے۔ یعنی بجلی اور یوٹیلیٹی بلز کے اخراجات ، راشن اور اشیائے خورونوش وغیرہ کا بجٹ ۔ نان آپریشنل خریداری پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے ، صرف ضروری اشیاء خریدی جائیں گی جبکہ حربی سامان مقامی کرنسی کے عوض ہی خریدا جائے گا۔ یہ اچھے فیصلے ہیں لیکن مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اگلے روز ممتاز پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کہہ رہے تھے ’ ہر ملک میں کوسٹ گارڈز ہوتے ہیں، بھارت میں بھی ہیں۔ لیکن ہم نے ایک ہی کام کے دو ادارے بنا رکھے ہیں۔ کوسٹ گارڈز بھی ہیں اور میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی بھی۔ اس میں سے ایک بند کردیں۔ آئی ایس پی آر کا ڈی جی، چیف ہوتا تھا، وہ بریگیڈئیر ہوتا تھا، اب بڑھتے بڑھتے لیفٹیننٹ جنرل تک پہنچ گیا۔ اسے ڈاﺅن گریڈ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ غیر محارب اخراجات میں کمی کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ بعض اخراجات ایسے ہیں، جنھیں مکمل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور سے پشاور تک، ہر پچیس کلومیٹر کے بعد ایک چھاؤنی ملے گی۔ یہ تمام چھاﺅنیاں انیسویں صدی میں بنی تھیں کہ برطانوی سلطنت کو زار روس کی طرف سے مداخلت کا خطرہ تھا۔ اب ماسکو تک ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں۔
چار، پانچ چھاؤنیوں کے علاوہ سب بند کرنی چاہئیں، اس سے اخراجات بچیں گے۔ ان کی زمین صوبائی حکومتوں کو دیں۔ یہ زمین ویسے بھی صوبائی حکومت کی ہے، انھوں نے لیز پر لے رکھی ہے۔ صوبے یہ زمین بیچیں،نتیجتاً پیسہ ملے گا ، صوبے کے بجٹ میں پیسہ ہوگا تو ان کا خسارہ کم ہوگا۔‘
اسی طرح بیوروکریسی سے بھی قربانی لینا ہوگی ۔ پندرہ سے بیس وزارتیں اور ڈویژنز ایسے ہیں جنھیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے لوگوں کو دیگر محکموں میں بھیجنا چاہیے جہاں آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ سترہ ڈویژنز ختم ہوئے تھے لیکن انھیں پھر بحال کردیا گیا۔ ان سترہ سے آغاز کریں ، اس کے سیکرٹریوں، ایڈیشنل سیکرٹریوں، جوائنٹ سیکرٹریوں، ڈپٹی سیکرٹریوں اور ان کے پورے عملہ کے اخراجات بچ جائیں گے۔
کچھ ایجنسیز ہیں، وہ بھی بوجھ ہیں۔ مثلاً پوسٹ آفس۔ جائزہ لیں کہ ہم نے پچھلے بیس برسوں سے کتنی بار پوسٹ آفس استعمال کیا۔ اس کا پہلے ایک ڈائریکٹر جنرل اور ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہوتا تھا۔ اب ایک ڈائریکٹر جنرل ہے اور نو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل۔
یہ محکمے اور ایجنسیاں ، وہ سفید ہاتھی ہیں جو اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ عوام کا کچومر نکال رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ہمارے ہاں کچھ مافیاز ہیں ، جو خون چوس رہے ہیں۔ مثلاً بنکوں کا مافیا ، جس نے حکومتوں کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے حکومتی خزانہ خالی کرتا رہتا ہے۔ ایسے ہی کچھ دیگر مافیاز بھی ہیں۔ تنگی داماں آڑے نہ آتی تو ان کا مختصر ذکر بھی کیا جاتا تو ایک پورا مقالہ تحریر ہوتا۔
کہنا صرف ہے کہ عام آدمی سے قربانی نہ لی جائے ، اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں۔ اپنی حکمت عملی میں پہلے نکتہ کے طور پر اسے شامل کرلیا جائے۔ جن کے پاس دینے کو بہت کچھ ہے ، انہی سے لے کر پاکستان کی معیشت درست کی جاسکتی ہے۔